Wednesday 3 December 2014

زندگی میں ایسا مقام بھی آتا ہے کہ ہم سےناراض ہونے کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے.تب ہم بہت مشکل صورتحال سے دوچار ہوتے ہیں لیکن ہمیں ناراضی کا اظہار کرنا ہوتا ہے اور کوئی چارە نہیں رہتا.کیونکہ آپ اپنے اندر موجود سارے لفظوں جذبوں احساسات اور انسانوں سے وابستہ بھرم اور امیدوں کو آزما چکے ہوتے ہیں اب صرف بچتی ہے صرف خاموشی جسکو پھر ہم آزماتے ہیں لیکن آخری حل اور آخری حربہ ہے.خاموشی کسی کے دل میں ہماری محبت نہیں داخل کر سکتی.کیونکہ جو آپکے جذبوں اور لفظوں کی وجہ سے آپ سے محبت یا چاہت نہیں کرتے تو خاموشی ان کا کیا بگاڑ سکتی ہے؟یہ تو صرف دو پل کے لیے کسی کو سوچنےپرمجبور تو کر سکتی ہے مگر مستقل طور پر آپکا تابع نہیں کرسکتی.جب پھر دونوں جانب خاموشی کا راج ہوجائے تو پھر دلوں پر محبت نہیں انا حکومت کرتی ہے. 
                                                         از:۔ منیب اختر رضآ                                                      
ہم یہی سوچتے رہتے ہیں کہ وقت کتنی تیزی سے نکلتا جا رہا ہے لیکن میرے خیال سے جتنی تیزی سے ہمارے اندر سے خلوص،پیار،محبت،احساس اور صبروتحمل نکلتا جا رہا ہے اسکی رفتار وقت کے نکلنے سے کہیں زیادە ہے.ان سب چیزوں کے نکل جانے کے بعدانسان اور رشتے بھی (خواە کس بھی قسم کے کیوں نہ ہوں) کہاں پہلے جیسی مظبوطی سے قائم رہتے ہیں؟یہ بھی وقت کی ہی تیزی سے ہماری زندگیوں سے نکل جاتے ہیں.پھر ہم وقت کی رفتاراور رشتوں کے بدل جانے کا شکوە و شکایت بھی کرتےہیں مگر خود میں آئے بدلائو کا ذکر تک نہیں کرتے کہ جس بدلائو نے وقت کو تیزی سے نکلنے اور رشتوں کو بدلنے پر مجبور کیا. سارا قصور وقت کے بدلنے کانہیں وەبے چارە تو ازل سے ابد تک بدلتا رہے گا بدلتے رہنا اسکی فطرت بھی ہے اور فرض بھی بلکہ انسانوں کا بدل جانا اس سے بھی اہم ہے.ضروری نہیں کہ وقت کے بدلنے سے ہر بار انسان بدل جائیں کبھی تو دنیا بدل جانے پر بھی انسان نہیں بدلتے تو وقت کے بدلنے سے کیا بدلیں گے لیکن جب انسان بدل جائیں تو وە وقت بھی بدل دیتے ہیں رشتے بھی بدل دیتے ہیں حتٰی کہ دنیا بدل دیتے ہیں. 
از:۔ منیب اختر رضآ
ہم تو گستاخ بھی ہم توعیار بھی
 مغروربھی ہیں بہت اور مکار بھی
 وەعاجز بھی ہیں اور مجبور بھی 
خلوص و دردمندی کے شاہکار بھی 
از:۔ منیب اختر رضآ —

Tuesday 14 October 2014

میرے لفظوں کے جو ہیں منتظر 
میری خامشی بھی وە سنا کریں
 میرے فرضوں پہ جنکی نگاە ہے
 میرے حق تو کبھی وە ادا کریں
 جنہیں ہم سے رہتی ہے امید وفا 
کبھی ہم سے بھی وە وفا کریں
 کرتےہیں جن سے ہم باتیں سب
  کچھ بات ہم سے بھی وە کیا کریں
 فقط ہمارا دل ہی رکھنے کو
 کبھی اچھاہمکو بھی وە کہا کریں
 اپنی ذات سے تو دور کر ہی دیا 
اب اپنی یاد سے بھی وە جدا کریں 
ہاتھ اٹھائے رکھتے جن کے لیےہم
 کبھی ہماری خاطر بھی وە دعا کریں
 دیتے آئےجنہیں آج تک اپنا خلوص 
گوارا نہیں کہ ہم سے بھی وە دغا کریں 
وە ہمدرد ہیں یہی تودرد ہے ہمیں 
اب اس درد کی بھی وە دواکریں
 رکے ہیں اب تلک جن کی خاطر ہم 
یوں ہو کہ ہمارے لیے بھی وە رکا کریں
لائق تو نہیں ہےانکے مگر مروتاً
کچھ دیرہمارےگھر بھی وە رہا کریں
بہت کاٹ چکےجرم کی سزا ہم منیب
ترس آئے قید سےہمکو بھی وە رہا کریں
 از:۔
 منیب اختر رضآ
Just came back home after visiting the flood affected area near Pakistan India border chapraar sector Sialkot..this area was not just affected with flood but also affected by indian forces firing and shelling...distributed the relief goods and meat...there was great threat and high risk/tension...Thanks to ALLAH we are now back home safely...May ALLAH give us chance to help our brother facing these problems there...AMEEN.
ہم ان سے نظریں بچائے پھرتے ہیں
 تو وە ہماری ٹوە لگائے پھرتے ہیں
 قربان کرنے کو انہیں جو کچھ نہیں ملتا 
تبھی سے ہمیں وە بکرا بنائے پھرتے ہیں
 کلیجی و ران سے صرف انکو ہے کیا مطلب 
انکے خیالوں میں ہمارے سری پائے پھرتے ہیں 
چھریوں کانٹوں اور اوزاروں سےانکا کیا کام 
نظروں کی تلوار تیز دھار ہم پہ چلائے پھرتے ہیں
 جب بھی ہمیں آجاتے ہیں سرراە وە نظر 
بھاگتے بھی ہیں ہم اور دم بھی دبائے پھرتے ہیں
 جان بھی حاضر جوش خطابت میں انکو کہہ جو دیا
 وە تو سچ مچ ہماری جان کو آزمائے پھرتے ہیں 
بات بکرے کی حد تلک ہوتی تو قبول تھی ہمیں 
مگر محلے میں ہمیں وە اونٹ کہلوائے پھرتے ہیں
 محبت انکی میرے لیے تو بنی ہے سودا گھاٹے کا
 ذبح بھی ہم ہوں گےشہرت تووە کمائے پھرتےہیں 
مارے ہی جائو گے مروت میں انکی تم منیب 
قربانی پر تمہاری وە ابھی سے اترائے پھرتے ہیں
 قربان ہو کر بھی انکی محبت ہمیں نہی ملنے والی
 یونہی تو نہی بچنے کوہم شور مچائےپھرتے ہیں
 گوشت کی اتنی بھی حرص ٹھیک نہی پکا ہی لینا 
صبر ہوتا نہی ان سے وەہمیں کچا ہی کھائے پھرتے ہیں 
مر کر بھی رہے گی ہمیں انکی عزت ہی عزیز
انکی محبت کے جھوٹے قصےہم سبکو سنائے پھرتے ہیں 
 انکی یہ ہم سےبے لوث محبت نہی تو اور کیا ہے؟ 
جی رہے ہیں اب تک ہم اسی بات کا ماتم منائےپھرتے ہیں 
چلے ہی جائیں گے ہم آخر اک روز ہمیں جانا ہوگا 
رہیں خوش وە ہمیشہ یہ دعائیں ہم کرائے پھرتے ہیں
 دو گھڑی ہی سہی بیٹھو پاس بات ہی کرلو ہم سے
راز بتانے ہیں تمہیں اب تک جو ہم چھپائے پھرتےہیں
 از:۔
 منیب اختر رضآ
السلام و علیکم اپنی فلاحی تنظیم
 T.S Welfare Organization کے زیر انتظام عید کے دوسرے دن سیلاب زدگان کے لیے امدادی سامان آٹا دال چاول گھی وغیرە لے کر ہم متاثرە علاقوں میں جارہے ہیں تاکہ ہم بھی ان مصیبت زدە لوگوں کے دکھوں کو کم کر سکیں اور انکو اپنی عید کی خوشیوں میں شریک کر سکیں.اسکے علاوە قربانی کا گوشت بھی تقسیم کیا جائے گا فی الوقت ان سے زیادە کوئی مستحق نہیں ہماری اس امداد کا.آپ احباب سے بھی اپیل ہے کہ آپ بھی عید کے اس موقع پر ان افراد کو مت بھولیں.اگر آپ میں سے کوئئ اس کارخیر میں کسی بھی حوالے سےحصہ ڈالنا چاہتا ہے تو ہم سے رابطہ کر سکتا ہے...آپ سے گزارش ہے کہ آپ ان مصیبت زدگان کے لیے الله سے دعاکریں اور ہمارے لیے بھی کہ ہم بہتر انداز میں انکی مدد کر سکیں...آمین 
منجانب:۔ منیب اختر رضآ
 Viber$Whatsapp 
03366107111 
03216107111
 info.tswo@gmail.com
 Hum apni falahi tanzeem. T.S Welfare Organization k tehat sailaab say mutasira ilaqoon main imdaadi saman aata,daal,chawal,ghi,etc ko sailaab zadgaan main taqseem karnay k liye eid k doosray din rawana ho rahay hain.iss k ilawa qurbani ka ghoosht b taqseem kia jayee ga.Fil waqt in say ziayada hamari imdaad ka koi aur mustahiq nahi...Aap ehbaab say apeal hai k aap loog b jitna ho sakay in logoon ki maddad kareen..Agar koi iss kaar e khair main hamari Maddad karna chhata hai tu woh hum say raabta kar sakta hai..Aap logon sau guzaarish hai k aap ALLAH say in museebat main ghurray logoon k liye dua kareen...aur hamaray liye b k hum inki behter andaaz main maddad kar sakeen ..Ameen...
 Munjanib 
Muneeb Akhtar Raza
 Baani o Sadar
 T.S Welfare Organization
 Viber Whatsapp. 03366107111

Sunday 21 September 2014

میرے لفظ تو تھےبے مطلب سے
 تھے بے ڈھنگے سے بے معنی سے
 تیری ذات سے جب منسوب کیے
 ہیں اب افسانے سے کہانی سے
 کبھی فقروں میں تعطل رہتا تھا
 اب بنتےہیں یہ شعر روانی سے
 میرے اشک بھی اب تو موتی ہیں
 لگتے تھے مجھے جو پانی سے
 میرے لفظ جو نہ سمجھے انکو کیا 
واسطہ میری چپ کےمعنی سے؟
 نہ ہوکر بھی میرے ساتھ ہیں وە
 جڑے ہیں اک تعلق روحانی سے 
از:۔ منیب اختر رضآ
یہ تنہائی بھی تومیری ہے میں اس بھی ملنا چاہتا ہوں
 فقط یہی فقط میری ہے میں اس سے ہی ملنا چاہتا ہوں
محفلیں روز سجتی ہیں یہ مجھ سے روزملتی تو ہیں لیکن
 میری ہو کر بھی یہ نہیں میری نہی ان سےملنا چاہتا ہوں
 یہ جو زندە دل کہلانے والے محفلوں میں تھرکتےرہتے ہیں
 ان کی زندە دل تنہائیوں سے تنہائی میں ملنا چاہتا ہوں
 شور غل کی محفلوں میں جو بہت خاموش رہتےہیں
 ان خاموش لوگوں میں چھپے شورو غل سے ملنا چاہتا ہوں 
بھری محفل میں بھی رہتا ہوں جانے کیوں میں تنہا سا؟ 
شاید اپنےاندر بپا محفل سے محفل میں ملنا چاہتا ہوں 
مل کےبھی نہیں مل پاتے مجھے جو لوگ محفل میں 
لمحہ بھر کو تنہائی میں ان پر اسرار لوگوں سے ملنا چاہتا ہوں 
چاە کر بھی سنا نہیں سکتے اپنی مجبوریوں کے سب قصے 
انہی لوگوں کے سب قصے سننے کو ان سے ملنا چاہتا ہوں 
میری تنہائی بھی تنہائی میں تنہا رە کر بہت شور کرتی ہے
 دلاسہ دینے کو اپنی تنہائی کو تنہائی میں ملنا چاہتا ہوں 
میری تنہائی ہی ہے جو مجھکو تنہا ہونے نہیں دیتی
 ادا کرنے کو تنہائی کا شکریہ میں اس سے ملنا چاہتا ہوں 
خود غرضوں کے جیسے ہرگز نہیں کرتی مجھے نظر انداز
 مل ہی جاتی ہے مجھے ہر پل مجھے جب بھی ملنا چاہتا ہوں 
ہوتی ہیں سب مجبوریاں جنہیں میری ہی ذات کی حد تک 
بتا دوان موقع پرستوں کو نہیں اب میں ان سےملنا چاہتا ہوں 
از:۔ منیب اختر رضآ

Friday 5 September 2014

کبھی شوخ سی کبھی گم سی لگتی ہیں
 یہ بارشیں  بھی مجھےتم سی لگتی ہیں
 یہ بوندیں کچھ چنچل ہوجاتی ہیں تیرے ذکر سے 
کرتی ہیں تجھے یاد تو بہت گم سم سی لگتی ہیں
تیری موجودگی میں لگتا تھا ہر لمحہ یادگار
 نہیں ہے اب تو٬تو یہ بارشیں ستم سی لگتی ہیں              
از:۔                 منیب اختر رضآ
ایک جانب کے لیےوزیراعظم ہائوس مقدس ہے اور دوسری جانب والوں کے لیے اپنے لیڈران عزیز....پتا نہیں ان میں کوئی ایک بھی ایسا ہے کہ نہیں جسے پاکستان کے تقدس کا خیال ہو؟کوئی ہے ان میں جس کو پاکستان کی عزت عزیز ہو؟کسی کو اپنا پی ایم ہائوس بچانا ہے اور کسی کو اپنے لیڈران کی حفاظت کرنی ہے....پاکستان کی حفاظت کو کوئی آگے نہیں آتا...کس سے شکوە کریں کس سے امید رکھیں؟کسکو بھلا کہیں کس کو برا جانیں؟التجا کس سے کریں کس سے درخواست کریں؟؟ان اناپرستوں سے امیدیں لگائیں؟نہیں ہرگز نہی..اب اسی سے مدد مانگنے کا وقت ہے جس نے پاکستان ہمیں دیا. اے الله تو نے ہی یہ ملک دیا یہ تیری ہی نعمت ہے تو ہی اسکی حفاظت فرما تجھ سے بہتر حفاظت کرنے والا کوئی نیں.اے الله تجھ سے ہی ہدایت کە درخواست کرتے ہیں اور تیری ہی مدد چاہتے ہیں.تو ہی بہترین مددگار اور ہدایت دینے والا ہے.اے میرے مولا اپنے حبیب صلی الله علیہ وسلم کے صدقے ہم پر رحم پر رحم فرما.ہماری امید بھی تو ہے اور طاقت بھی تو اور ہم مٹی کے انسانوں کے پاس ہے ہی کیا اور ہمیں آتا ہی کیا بلکہ ہمارے پاس تجھ سے مدد مانگنے کے اور چارە ہی نہیں اور تو ہی زبردست طاقت رکھنے والا چارە ساز ہے.پروردگار ہماری قوم جو اپنے ذاتی مفادات کے لیے منقسم ہے اور باہم دست و گریبان ہے ان کو ملک کے بہترین مفاد کے لیے متحد فرما.اے ہمارے مالک تو سب بہتر جانتا ہےاور ہمین یقین ہے کہ تو وہی کرے گاجو ہمارے لیے بہتر ہے.تجھ سے تیرے رحم و کرم کی بھیک مانگتے ہیں اور بہتری کے طلبگار ہیں.ہماری دعائوں،التجائوں اور فریادوں کو قبول فرما لے...آمین..
 ایک عام پاکستانی
 منیب اختر رضآ
لمحہ لمحہ جس کے لیے ہم نے کیاہےوقف 
اسی کے پاس ہمارے لیے نہیں بچا ہےوقت
 یہی احسان اس کا ہم پر کیا کم ہےساتھیو؟ 
معذرت تو کرتا ہے مسلسل مگر لہجہ ہے سخت 
         از:۔             منیب اختر رضآ

Thursday 21 August 2014

میرا لفظ لفظ ہی جھوٹ تھا،تیرا حرف حرف بھی تو سچ ہوا
 تیرا حرف آیا جو میرے لفظ پر،وہی جھوٹ آخرکو سچ ہوا 
از:۔ منیب اختر رضآ                                                                            

Wednesday 20 August 2014

تم نہ بدلے،میں نہ بدلا،نہ ہی بدلا ہےوقت 
لہجے بدلے،اندازبدلا اور احساس بدلا ہے فقط 
از:۔ منیب اختر رضآ                                                                        
لوگوں کی جھولیاں بھرتے رہے
 کیوں آج اپنے ہاتھ خالی ہیں؟
 کل جواب تھے ہم جن سوالوں کا
آج اس جواب کے ہم سوالی ہیں
ناز تھا کبھی ہمیں جنکے خلوص پر
 اب جاناکہ وە جذبے ہی جعلی ہیں
 سچ کہ وە ازل سے بانٹتے آئے محبتیں
گناە اپنا کہ عداوتیں ہم نے پالی ہیں

                            از:۔                       
 منیب اختر رضآ                                     

Sunday 27 July 2014

Hasil.

احباب کچھ یوں چاہتوں کا ہمکو صلہ دیتے ہیں
 جرم خود کرتے ہیں مجرم ہم کو بنا دیتے ہیں
 انکے روبرو میری خوشیوں کا ذکر ہے بے معنی 
میرے دردو غم ہی ہیں بس جو انکو مزا دیتے ہیں
تیغ و تلوار نہیں پاس انکےنہ چڑھاتےہیں وە سولی 
 لہجہ و لفظ کے ہتھیاروں سے وە ہمکو سزا دیتے ہیں
 کون کہتا ہے وە کرتے ہیں فراموش عنایات ہماری
 گلے شکووں سے بس ان عنایات کی ہمکو جزا دیتے ہیں
 کانٹوں سےانہیں پیار پھولوں کو وە جلا دیتے ہیں 
وە احسان فراموش تو مخلصوں کو بھی بھلا دیتے ہیں
 وە ہیں بنجارے سبھی کےدل ہیں انکا مسکن 
افسوس اپنے دل میں کہاں وە ہمکو جگہ دیتے ہیں؟ 
اسی لیے ناز ہے آج تک ہم کو اپنی قسمت پر
 یاد تو کرتے ہونگےوە تبھی تو ہمکوبھلا دیتے ہیں 
ترش ہو جائے کسی سے لہجہ میری فطرت ہی نہیں
 مٹھاس رہتی ہے ان سے بھی جو ہمکو ایذاٴ دیتے ہیں 
ہر فرد کے ہوا کرتے ہیں معیار و ظرف جدا جدا 
خلوص مانگتے ہیں ہم ان سےوە ہمکو دغا دیتے ہیں
 ہم برے ہیں بہت اس بات کا احساس مجھے ہے مگر
 تب برا لگتا ہے جب وە اس بات کا احساس دلا دیتے ہیں
 انکو بھول جانا ہی بھلا یہ ہمیں یاد کہاں رہتا ہے؟
 شکریہ انکا وە یہی بھول ہمیں یادکرا دیتے ہیں
 دستور ہے انکا بٹھاتے ہیں جن کو وە سرآنکھوں پر 
نکل جاۂے مطلب توانہیں نظروں سے گرا دیتےہیں 
اور کیا دینگےہم انکو پاس ہمارےدینے کوبچا کیا ہے؟ 
خوشیاں چومتی رہیں قدم انکے ہم انکو دعا دیتے ہیں 
الفاظ کو جوڑنے سے فقط فقرے ہی بنا کرتے ہیں 
ہم تو اپنے احساس جوڑتے ہیں اور شعر بنا دیتے ہیں 
از:۔ منیب اختر رضآ

Wednesday 18 June 2014

کبھی وە زوال ہی میرا عروج تھا 
میرے عروج بھی اب تو زوال ہیں 
تیری وە قربتیں بھی عظیم تھیں
 تیری دوریاں بھی اب تو کمال ہیں 
کبھی غم بھی تو میرا رفیق تھا 
کہ یہ مسرتیں بھی اب توملال ہیں
 تھی وصال میں ہجر کی کیفیت
 تیرے ہجربھی اب تو وصال ہیں
 ہیں موجود مجھ میں جوخوبیاں 
تیری ذات ہی کےاب تو جمال ہیں 
از:۔ 
منیب اختر رضآ

خود غرضی

جب ہم کسی دوسرےکو خود غرض کہتے ہیں تو اصل میں دیکھاجائے تو ہم خود کو خودغرض کہہ رہے ہوتے ہیں کیونکہ جس کو ہم خودغرض کہتے ہیں اسی سے ہمیں کوئی نہ کوئی غرض ضرور ہوتا ہے اور چونکہ وە ہمارا غرض پورا نہیں کر پاتا اسی لیے وە ہمارےلیے خودغرض بن جاتالیکن اصل خود غرض تو ہم ہیں جو دوسرے سے غرض لگا کر اسےخودغرض کہتے پھرتے ہیں. 
از:۔ 
منیب اختر رضآ

دکھاوا

ہماری زندگی ان لوگوں کے لیے نہیں جو ہمارے سامنے مخلص ہونے کا دکھاوا کرتے ہیں یا ہم سے مخلوص ہونے کا دعوی کرتے ہیں.مخلص تو وە ہیں جو ہماری غیر موجودگی میں بھی ہمارے بارے میں اچھی رائے رکھتے ہوں یا ہماری خیر خواہی کے جذبات رکھتے ہوں. خلوص انسان کی باتوں سے نہیں اس کے اعمال سے ظاہر ہوتا ہے.مطلبی لوگ صرف باتیں کرتے ہیں عمل نہیں. 
از:۔ 
منیب اختر رضا

Sunday 15 June 2014

گونگے

گونگے وە نہیں ہوتے کہ جو کچھ بول نہیں سکتے یا کسی کو کچھ سنا نہیں سکتے.گونگے تو وە ہیں جو بول بھی سکتے ہیں،جن کے پاس زبان بھی ہے،جو اپنی باتیں دوسروں کو سنا بھی سکتے ہیں،جن کےپاس الفاظ بھی ہوتے ہیں لیکن انکی کوئی سنتا نہیں... وە گونگا نہیں جو سنا نہ سکے بلکہ اصل میں گونگا وە ہے کہ جسکی کوئی سننا ہی نہ چاہے!؂ 
 از:۔ 
منیب اختر رضآ

Saturday 14 June 2014

قابلیت

 ہر کندھا اس قابل نہیں ہوتا کہ جس پر سر رکھ کر جی بھر کے رویا جائے کیونکہ ہر کندھے میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وە اس روتے ہوئے شخص کے آنسوئوں کو جذب کرکے اسکو دلاسہ دے سکے.اور ہر روتا ہوا شخص اس قابل نہیں ہوتا کہ جسکے آنسوئوں کو جذب کرکے اسے دلاسہ دینے کو اپنا کندھا پیش کیا جائے
. از:۔
 منیب اختر رضآ

پستی و بلندی

دنیا میں ہر میدان میں ہر کام میں ہر عمل میں اگر ہمیں کامیابی حاصل کرنی ہو یا ترقی کرنی ہو تو ہمیں آگے کی جانب ،اوپر کی جانب سفر کرنا ہوتا ہے.خود کو اوپر اٹھانے کے لیے اوپر سے اوپر چڑھتے جانا ہوتا ہے.کوئی اگر خود کو گرا لے یا گھٹنوں کے بل کھڑے ہونے پر آپ ترقی نہیں کر سکتے.یعنی دنیا میں کسی بھی حوالے سے پست ہونا آپکو بلندی کی طرف نہیں لے کر جاسکتا.یہی دنیا کا نظام ہے اور یہی اسلوب. 
لیکن ایک جگہ ایسی ہے کہ جہاں یہ نظام دنیا سے بالکل برعکس ہے.جہاں پست ہونا ہمیں بلندیوں کی طرف لے کرجاتا ہے.جس بارگاە میں خود کو گرا لینے سےآپ اوپر کی جانب اٹھتے چلےجاتے ہیں.جتنا جھکتے ہیں اتنا عروج حاصل کرتے جاتے ہیں.جتنا زمین پر پیشانی جماتے ہیں اتنا ہیں آسمان اتنا ہی قریب ہوتا جاتا ہے.جہاں خود کو فنا کرکے امر ہوتے چلے جاتے ہیں.جتنے عاجز ہوتے جاتے ہیں اتنے ہی اونچے مقام و مرتبے کو پاتے ہیں.جہاں اپنی ذات کو مٹا کر زندە وجاوید ہو جاتے ہیں. یہ نظام صرف الله کی بارگاە کا نظام ہے.جہاں آنسو گراتے جائو اور فلاح پاتے جائو .خود کو زمین پر گرائو یا اپنے آنسو ٹپکاتے جائو اور مرتبے کی سیڑھیاں چڑھتے جائو.خود کو ادنی بناتے جائو اور اعلی درجوں کو حاصل کرو.انا کی پستی میں اتر کر عطا کی بلندیوں کو چھو لو.الله پاک کے آگے جھکنا ہی اصل میں انسان کو اس قابل بناتا ہے کہ وە زندگی کےہر میدان میں کامیابی سے سیدھا اور باعزت طور پر کھڑا ہو سکے. 
از:۔
 منیب اختر رضآ

Sunday 8 June 2014

آئیڈئیل!

کچھ لوگوں سے بات کرنے میں لطف آتا ہے اور کچھ لوگوں کی بات کرنے سے لطف آتا ہے لیکن ایسی شخصیت کہ جس سے گفتگو کرنا بھی مزە دے اور جسکی گفتگو کرنا بھی آپکو لطف دے.اصل میں وہی شخصیت آپکے لیے آئیڈیل ہوتی ہے.وہی آپکے لیے مثالی ہے اور وہی آپکے لیے کامل!؂ 
 از:۔
 منیب اختر رضآ

Saturday 7 June 2014

ںعت رسول مقبول ﷺ

جا زندگی مدینے سے جھونکے ہوا کے لا 
شاید حضورص ہم سے خفا ہیں منا کے لا
کچھ ہم بھی اپنا چہرە باطن سنوار لیں 
 ابوبکرؓ سے کچھ آئینے عشق و وفا کے لا
 دنیا بہت ہی تنگ مسلماں پہ ہوگئی 
فاروقؓ کے زمانے کا نقشہ اٹھا کے لا 
محروم کردیا ہمیں جس سے نگاە نے 
عثمانؓ سے وە زاویے شرم و حیا کے لا 
مغرب میں مارا مارا نہ پھر اے تلاش علم 
دروازە علیؓ سے یہ خیرات جا کے لا 
باطل سے دب رہی ہے امت رسول کی 
منظر ذرا حسینؓ سے پھر کربلا کے لا
 کلام:۔ مظفر وارثی

Sunday 1 June 2014

موسم کا ساتھ

اکثر انسانوں سے زیادە موسم ہمارا خوب ساتھ دیتا ہے.یہ ہمیں اکیلا ہونے نہیں دیتا.جب دل کا موسم شاد ہو تو یہ برستا ہے اور جم کربرستا ہے ہماری خوشی میں ہمارے ساتھ خوش ہوتا ہے.جیسے ہم خوشی میں اپنا سب کچھ دوسروں پر نچھاور کرنے کو تیار ہوتے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ جیسے ہم خوش ہیں ویسے ہی ہم دوسروں پر خوشیاں نچھاور کریں لیکن شاید ہماری خوشی میں ہمارے اردگرد موجود انسانوں کی بجائے موسم خوش ہوتا ہے اتنا برستا ہے کہ ہر چیز کو شاداب کر دیتا ہے.ہماری خوشی میں اس حد تک خوش ہوتا ہے کہ بادل اپنی آخری بوند تک برسانے کو تیار رہتے ہیں کہ کہیں ہماری خوشی کے استقبال میں کوئی کمی نہ رە جائے.کہیں اس خوشی کے اظہار میں کوئی دیر نہ ہوجائے.کہیں کوئی محروم نہ رە جائے.بادلوں کے پاس بوندوں کے علاوە ہوتا ہی کیا ہے؟انکا کل اثاثہ بوندیں ہی تو ہیں لیکن بادل اپنی آخری بوند تک برسا کر اپنے وجود کو ختم کر لیتے ہیں لیکن اپنے اظہار میں کوئی کنجوسی نہیں کرتے.ان بادلوں کا یہ خلوص آپکو ایسا احساس دے جاتا ہے کہ جسے آپ کبھی فراموش نہیں کر پاتے.کسی انسان سے کیا گلہ کہ وە ہماری خوشی پر نہ تو اظہار کرتا ہے نہ اس میں شریک ہونے کی کوشش کرتا ہےبلکہ اکثر ہمارے خوش ہونے پر افسردە ہو جاتا ہے. 
غم میں بھی معاملہ کچھ زیادە مختلف نہیں ہوتا.یہ موسم یہ بارش یہ بادل یہ بوندیں تب بھی اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہیں.حالت غم میں جب ہماری آنکھیں برستی ہیں تو موسم کا حال بھی کچھ زیادە مختلف نہیں ہوتا.یہاں آنکھوں سے آنسو برستے ہیں وہاں بادل آسمان سے ننھی بوندیں بھیجتے ہیں ہمیں تسلی دینے کو ہمیں حوصلہ دینے کو اس غم کے اظہار میں شرکت کے لیے.یہ ننھی بوندیں ہم سے کہتی ہیں تم اکیلے نہیں ہم بھی تمہارے ساتھ شریک ہیں.پھر موسم کو بھی ہماری حالت کی آگاہی ہو جاتی ہے.پھر وە ہماری حالت دیکھ کر ردعمل کا اظہار کرتا ہے.جب کوئی ایک آدھ آنسو ہمارے رخسار پر بہہ نکلتا ہے تو بوندا بندی شروع ہو جاتی ہے.جب آنسو جوڑے بنا کر نکلتے ہیں یا انکی تعداد میں اضافہ ہوتا ہےتو بوندوں کی تعداد بھی بڑھ جاتی ہے اور انکے برسنے کی رفتار بڑھ جاتی ہے.اب جب شدت میں اضافے کے باعث زاروقطار والا مرحلہ آن پہنچتا ہے جب آنسوئوں کے بہنے کی رفتار اور مقدارکا اندازە نہی رہتا تو یہ بادل بھی آپے سے باہر ہو جاتے ہیں اور اپنی پوری استطاعت اور طاقت سے برستے ہیں اور اک پل کے لیے بھی ہمیں تنہائی کا احساس ہونے نہیں دیتے.قصہ صرف یہیں تمام نہیں ہوتا وقتا فوقتا بادلوں کی یہ گرج ہماری سسکیوں اور آہوں کو اپنے دامن میں چھپا کر ہمیں دلاسہ دیتی ہے.غم کی یہ ساری کیفیت موسم پر بھی طاری رہتی ہےایک پر خلوص اور احساس مند دوست کی طرح.یہ ننھی بوندیں شاید بڑے بڑے انسانوں سے بھی بڑی ہوجاتی ہیں کیونکہ خوشیاں اور غم بانٹنا بڑے اوراعلی ظرفی کی نشانی ہےاور اکثر یہ چھوٹی بوندیں بڑائی اور اعلی ظرفی دونوں تک پہنچ جاتی ہیں جہاں شاید انسان نہیں پہنچ پاتے. 
ہم انسان تویہ سمجھتے ہیں کہ جب تک ہم حوش ہیں سارا جہان خوش ہے.وە خوشی خوشی نہیں جو آپکو تنہائی میں ملےاور آپکو تنہا کردے یہ تو صرف خودغرضی ہے.جوخوشی آپکو تنہا کر دے تو وە غم کے سوا کچھ نہیں کیونکہ جب غم آتا ہے تو وە تنہا کر کے ہی چھوڑتا ہے. 
از :۔                                                                                                                     
منیب اختر رضآ                                                                                                                         

عروج و زوال

شاید کہ یہ عروج تھا 
کہ اب سفر زوال ہے
 :)
منیب اختر رضآ                          

Monday 26 May 2014

گنبد خضریٰ
























آنسو

بارش کے لاکھوں قطرے مل کر بھی اس ایک قطرے کا مقابلہ نہیں کر سکتے جو ایک انسانی آنکھ سے ٹپکتا ہے.ویسے تو بارش کے قطرے کافی اونچائی سے زمین کا سفر کرتے ہیں لیکن یہ اس بلندی پر کبھی پہنچ نہیں پاتے جہاں سے ایک آنسو آنکھ کی جانب سفر کرتے ہیں.بارش کا قطرە صرف پانی ہوتا ہے اور پانی میں مل کر بھی میں سوائے ارتعاش کے کچھ پیدا نہیں کرتا.آنسو میں پانی کہاں ہوتا ہے؟اس میں تو جذبات و احساسات کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہوتا ہے.یہ ایک ننھی سی بوند ہزار ہا کہانیوں کو اپنے اندر سموئے ہوتی ہے.اس ایک قطرے کی گہرائی سمندر سے بھی زیادە ہوتی ہے جس میں ہزاروں انسان ڈوب سکتے ہیں.اس میں ایک عجیب طاقت ہوتی ہے اگر یہ قطرە سمندر میں گر جائے تو سمندر کو رونے پر مجبور کر دے. انسان کا ایک آنسوبھی انمول ہوتا ہے جس کی قیمت کوئی ادا نہیں کر سکتا.لیکن ہم نے اس کو اتنا بے قیمت اور ارزاں کر دیا ہے کہ بےقدر اور خود غرض لوگوں کے لیے بہاتے پھرتے ہیں.ان آنسوئوں کی اصل قیمت ایک ہی ہستی دے سکتی ہے جو اس کی قدر جانتی ہے.وە ہستی اس ایک قطرے کے بدلے پوری دنیا بھی عطا کرتا ہےاور سکون بھی دیتا ہے.ہمارے آنسو صرف الله پاک کی ذات کے لیے مخصوص کردیں اور اس ایک قطرے کے بدلے اس عظیم بادشاە سے دنیا و آخرت حاصل کر لیں.اس سے پہلے کہ کوئی اور ہم پر اپنے آنسو بہائے اور ہم اسکے آنسو بے قیمت کر جائیں۔
                  . از:۔
منیب اختر رضآ

وقت

اس تیز رفتار اور مصروف دور میں اپنوں کو یاد تک کرنے کا وقت کس کے پاس ہے؟انسان تو خیر دور کی بات ہے ہم انسانوں سے جڑی یادوں تک کو یاد نہیں رکھ پاتے یا انہیں نظر انداز کر دیتے ہیں.میں تو کئی بار ان یادوں سے بھی معذرت خواە رہتا ہوں کے انہیں بھی وقت نہ دے پایا. جس طرح وقت گزر رہا ہے اسی طرح بہت سے انسان بھی ہماری زندگی سے گزرتے چلے جا رہے ہیں.ہم یہ تک یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ جس سے ہم آج مل رہے ہیں کل بھی اس سے ملاقات رہے گی یا نہیں. اپنی زندگی میں ہم ان گنت لوگوں سے ملتے ہیں.کچھ سے چند لمحوں کی ملاقات رہتی ہے.کسی سے تعلق کا سفر ہفتوں یا مہینوں پر محیط ہوتا ہے.کچھ تو ایسے ہیں کہ جن سے روزانہ کی بنیاد پر سالوں تک میل ملاپ رہتا ہے.لیکن ہم کسی کے بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ اس شخص سے اگلے لمحے ملاقات رہے گی یا نہیں۔
ملاقاتیوں کی اس طویل فہرست میں گنتی کے چند لوگ ہی ہیں کہ جن سے دوبارە ملنے کی خواہش ہمیشہ جاگزیں رہتی ہے.ایسے لوگ ہمارے دل کے انتہائی قریب ہوتے ہیں.ان کا عزت و مقام ہماری نظر میں بہت اعلی ہوتا ہے.وە ہمارے لیے بہت اہمیت اختیار کر جاتے ہیں.ان لوگوں سے ہماری ہر ملاقات ہمارے لیے خوشی کا باعث ہوتی ہے.انکی موجودگی کا احساس ہی ہمیں سرشار کر دیتا ہے.ان کا ادا کیا ہوا ہر حرف ہر فقرە ہماری سماعتوں کو تسکین بخشتا ہے.انکی ہم پر ڈالی ہر نظر ہمارے لیے اعزاز سے کم نہیں ہوتی.انکی مسکراہٹ اور خوشی کا اظہار ہمارے قلب کے لیے باعث اطمینان ہوتا ہے.انکی ہر بات روح میں اتر جانے کی طاقت رکھتی ہے.ان کا ہر ایک طرز عمل ہمارے لیے قابل تقلید ہوتا ہے.انکی سوچ و فکر ہم پر اثر انداز رہتی ہے.انکی شخصیت میں ایک طلسماتی کشش ہوتی ہے.جنکی تمام حرکات و سکنات،قول و فعل،انداز و دیگر معاملات پر ہم توجہ دیتے ہیں.جن کا پاس ہونا ہمیں ہر فکر سے آزاد کر دیتا ہے.جن پر ہمیں اپنی ذات سے زیادە اعتماد اور بھروسہ ہوتا ہے.جن کو اپنے ہر راز میں شریک کرنے کا جی چاہتا ہے.جنکے ہر مشورے اور نصیحت میں خلوص اور خیر خواہی چھلکتی ہے.جنکی بے تکلفی میں ہمیشہ اپنائیت دکھائی دیتی ہے. یعنی ایسے لوگ جن سے ہم ہر حوالے سے متاثر رہتے ہیں اور ہمیشہ ان سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کی آرزو کرتے ہیں۔
 وقت جب بدلتا ہے تو وە ہماری خواہش یا منشا کو ملحوظ خاطر نہیں رکھتا.جب وقت کروٹ لیتا ہے تو وە کسی کی نہیں سنتا بس وہی کر گزرتا ہے جو اسکی مرضی ہوتی ہے.وقت نہ ہمارے برسوں پر محیط تعلق کو دیکھتا نہ کسی اور حوالے سے متاثر ہوتا ہے وە بس ایک لمحے میں ہمیں ہمارے دستوں و عزیزوں سے جدا کر دیتا ہے ایک پل میں قربتوں کو دوریوں میں بدل ڈالتا ہے. پھر وہی اپنے جن سے برسوں کے یارانے ہوتے ہیں ہم سے دور ہو جاتے ہیں.جن سے دوری کا تصور بھی ممکن نہیں ہوتا انہی سے جدا ہونے کے لیے وقت ہمیں مجبور کر دیتا ہے.وقت کے اس فیصلے کے آگے ہیں سر تسلیم خم کرنا ہوتا ہے۔
پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جن سے روزانہ مستقل بنیادوں پر ملاقات رہتی تھی ان سے دنوں،ہفتوں یا مہینوں بلکہ بعض اوقات سالوں بعد ملاقات ہوتی ہے.کبھی ان لوگوں سے رابطے کا کوئی ذریعہ بھی باقی نہیں رہتا . پھر وە وقت بھی ہوتا ہے کہ رابطے کے ہزار طریقے ہزار ذرائع ہوتے ہیں لیکن پھر بھی رابطہ ہو نہیں پاتاکبھی ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا یا کبھی دوسرے فریق کے پاس بات کرنے کو وقت نہیں ہوتا.اکثر ایسے مواقع بھی آتے ہیں کہ دونوں کے پاس وقت ہوتا ہے لیکن بات کرنے کے لیے وقت موزوں نہیں ہوتا.کبھی وقت ہی ہمیں وقت نہیں دیتا تو اس وقت ہم وقت کے انتظار میں وقت صرف کرتے ہیں۔
وە دور بھی آتا ہے جب ہم وقت ہوتے ہوئے بھی اس وقت ایک دوسرے کو وقت نہیں دیتے اور ایک دوسرے کو نظر اندازکرتے ہیں.اس وقت ہم سارا الزام وقت پر دھر دیتے ہیں. مجرم ہماری اپنی ذات ہوتی ہے اور الزام وقت کے سر ہوتا ہے.کسی کو نظر انداز کرنے کے لیے وقت سے بہتر بہانہ موجود ہی نہیں. اگر آج ہم وقت کو وقت نہیں دیتے تو کل وقت بھی ہمیں وقت نہیں دے گا.آج ہم اگر کسی انسان کو وقت نہیں دیتے تو ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ کل اس انسان سے وقت لینا بھی مشکل ہو گا۔
 جیسے جیسے ہم کسی دوست یا شخص کو وقت کی وجہ سے نظر انداز کرتے ہیں ویسے ویسے ہی وە شخص ہم سے دور ہوتا چلا جاتا ہے.وہی دوست ہمارے اتنا قریب نہیں رہتا کہ جتنا پہلے ہوا کرتا تھا.ایک دن وە ہماری دسترس سے باہر ہو جاتا ہے اور ہم چاە کر بھی اسے دوبارە پاس نہیں بلا سکتے نہ اسے آواز دے سکتے ہیں اور نہ اس سے کوئی بات کہہ سکتے ہیں.بس پھر اس شخص کی ایک ہی چیز ہمارے پاس رە جاتی ہے ....اس وقت کی یاد.. اور ہماری پشیمانی ہی ہماری کمائی ہوتی ہے!؂
                      از:۔
 منیب اختر رضآ

منفی سوچ

منفی سوچ سے ہمیشہ منفی عمل پیدا ہوتا ہے اور جو عمل ہی منفی ہو تو اسکا انجام بھی منفی ہی ہوگا.حقیقی زندگی کوئی الجبرا نہیں کہ جس میں منفی کو منفی کے ساتھ ملانے سے وە مثبت ہو جائے.ہماری زندگی تو سادە سے حساب یعنی جمع تفریق کے گرد گھومتی ہے.مثبت سوچ رکھو تو خوشیاں،نیکیاں،کامیابیاں اور آسانیاں ہمارے گرد جمع رہیں گی.مثبت سوچ ہمارے گرد سکون بھی جمع رکھے گی اور سب سے بڑھ کر ہمارے گرد خیر خواە لوگوں اور مظبوط رشتوں کو جمع رکھے گی. منفی سوچ تو بس تفریق ہی کرتی ہےکہیں خوشیاں تفریق کرتی ہے کبھی آسانیاں تو کبھی یہ منفی سوچ ہماری زندگیوں سے سکون بھی تفریق کر دیتی ہے.منفی سوچ مظبوط رشتوں کو بھی تفریق کر دیتی ہے اور خیر خواہوں کے ہجوم کو بھی.سب سے بڑھ کر منفی سوچ الله کی رضا کو تفریق کرتی ہے اورجس کی زندگی سے الله کی رضا ہی تفریق ہوجائے تو اس بدنصیب کے لیے دعا ہی کی جاسکتی ہے. منفی سوچ سے منافع نہیں نقصان ہوتا ہے.کسی اور کا نہیں اپنا نقصان.ہم زندگی کے ہر شعبے میں نفع چاہتے ہیں فائدے کے طلبگار رہتے ہیں لیکن ہم اس منافع اور فائدے کو حاصل کرنے کے لیے منفی سوچ کا سہارا لیتے ہیں اورجب فائدے کی بجائے نقصان ہوتا ہے تو الله سے گلے شکوے کرتے ہیں.لوگوں کو پینے کو زہر دیتے ہیں اور بدلے میں ان سے شہد کی خواہش رکھتے ہیں.
                           از:۔
 منیب اختر رضآ

خطرناک لوگ

وە لوگ نہایت خطرناک ہوتے ہیں جو آپ سے تعلق توڑنے کے لیے آپ کو ہی استعمال کریں.ایسے لوگ آپ سے تعلق توڑنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں اور ہمیشہ موقع کی تلاش میں رہتے ہیں لیکن انکا اصل ہنر یہ ہے کہ وە کبھی بھی خود پر الزام آنے نہیں دیتے کیونکہ وە ہمیں تعلق توڑنے پر مجبور کر دیتے ہیں اور خود ہمیشہ معصوم بن کر ہمیں قصوروار بنا ڈالتے ہیں. اگر ہم وقتی طور پر تنگ آ کر یا غصے میں ان سے کہہ دیں کہ "میں آپ سے بات نہیں کرنا چاہتا" تو وە نہایت شاطرانہ انداز میں کہہ دیتے ہیں کہ "جیسے آپکی مرضی" اور انہی الفاظ کے ساتھ ہی خدا حافظ یا رب راکھآ کہہ جاتے ہیں ساتھ ہی جاتے جاتے خوش رہنے کی دعا بھی دے جاتے ہیں.وە ہمیں ہماری ہی نظروں میں مجرم بنا کر خود معصوم بن جاتے ہیں حالانکہ وہی دل میں ترک تعلق کی شدید خواہش رکھتے ہیں لیکن اس میں پہل نہیں کرتے بلکہ دوسرے کو مجبور کر دیتے ہیں.انکی دوستی اور خلوص محض دکھاوا ہوتا ہے. ان کےبرعکس کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہر قیمت پر تعلق کو بچانا جانتے ہیں.وە کبھی آسانی سے کسی دوست کو جانے نہیں دیتے.وە اپنی انا کو قربان کرکے تعلق کو ایک نئی زندگی بخش دیتے ہیں..وە کسی کی غلطی یا قصور کو اپنے سر لے کر معافی مانگ لیتے ہیں اور ترک تعلق کی نوبت نہیں آنے دیتے.لیکن ۔صد افسوس کہ ایسے گنتی کے چند لوگ ہی ہوتے ہیں. ! تعلق جوڑ لینا کامیابی نہیں تعلق جوڑے رکھنا کامیابی ہے! ؂
 از :-
منیب اختر رضآ

Wednesday 5 March 2014

تیس سیکنڈز!

کچھ کاموں کی انجام دہی کو صرف چند لمحے درکار ہوتے ہیں.اپنوں کو غیر ہونے میں،دوست کو اجنبی ہونے میں،تعلق کے لا تعلق ہونے میں،دعوے کو دکھاوا ہونے میں،انمول کو بے قیمت ہونے میں،خلوص کو بدنیت ہونے میں،مستقل کے عارضی ہونے میں،نرم سے سخت ہونے میں،پاس سےدور ہونے میں،قادر سے مجبور ہونے میں،طاقتور سے عاجز ہونے میں،ہم کلام سے بےکلام ہونے میں.صرف یہ فہرست یہیں تک محدود نہیں بلکہ اور بہت سے کاموں کے ہونے میں وقت کہاں لگتا ہے.انسان کے بدل جانے کے لیے صدیاں درکار نہیں ہوتیں صرف چند لمحے ہی کافی ہوتے ہے.ہم جب کسی اپنے دوست یا قریبی کو اجنبی یا دور کرنا چاہیں اسکو پرایا کرنا چاہیں تو بھی کچھ ہی پل چاہیے.خاموشی کبھی بھی تعلق یا رشتے کے خاتمے کی وجہ نہیں بنتی.خاموشی سےدوستی ختم نہیں ہو جایا کرتی.خاموشی تو بس وقتی طور پر رشتوں میں معمولی و عارضی سا خلا اور ججھک پیدا ہوتی ہے جسے بے تکلفی سے اور خلوص سے کچھ ہی لمحوں میں ختم کیا جا سکتا ہے.لیکن لفظوں اور رویوں کے بدلنے سے جو خلا پیدا ہوتا اس کو ختم کرنا نہایت مشکل ہوتا ہے. صرف تیس سیکنڈ کے اندر اندر ہی ہم برسوں کی دوستی کا خاتمہ کر ڈالتے ہیں.صرف تیس سیکنڈ لگتے ہیں کسی پرانےتعلق سے لاتعلق ہوتے.سالوں کی وابستگی بیگانگی میں بدلتے ہیں صرف تیس سیکنڈ.وە تیس سیکنڈ کے جس کے دوران سلام دعا بھی ہوتی ہے حال احوال کےسوالات بھی ہوتے ہیں اور نیک تمنائوں کا تبادلہ بھی ہوتا ہے لیکن یہی تیس سیکنڈ ہمارے تعلقات،رشتوں،وابستگیوں اوردوستیوں کے مستقبل کا تعین کرتے ہیں. بظاہر تو ان تیس سیکنڈز کے درمیان رسمی گفتگو رہتی ہے کہ جن سے رشتےمظبوط ہوتےہیں لیکن ان تیس سیکنڈز میں ہونے والی گفتگو کے لیے استعمال ہونے والا لہجہ،اندازگفتگو،طرز و لےاور وە بےنیازی ہی کا فرق ہوتا ہے. دسمبر کی راتوں کی طرح سرد لہجے،تلوار کی طرح دل چیرتا ہوا انداز گفتگو،بے لچک طرز اور مدھم ہوتی لے،بےنیازی و بےرخی سے دوسری جانب دیکھتی آنکھیں،بےدلی سے سلام کے لیے سست رفتاری سے بڑھتا ہاتھ اور سلام لینےکے بعد برق رفتاری سے پیچھے ہٹتا ہاتھ،چہرے پر پھیلی بےزاری و بےتوجہی،غصےسے سکڑھتی ناک ایک خلوص سے عاری مصنوعی و بناوٹی سی مسکراہٹ،کانٹوں کی طرح چبھتے لفظ،رخ بدلنے کی جلدی اور واپس لوٹ جانے و نظروں سے اوجھل ہوجانے کی تیزی یہ سب کچھ ہوتا ہے صرف تیس سیکنڈ میں.کچھ یوں ہوتے ہیں اپنے پرائے صرف تیس سیکنڈ میں.مظبوط ترین رشتوں کا خاتمہ کچھ ایسے کرتے ہیں یہ تیس سیکنڈ.گلے شکوے کرنے کی بھی مہلت نہیں دیتے یہ تیس سیکنڈ.کسی کو پیچھے سے آواز دے کر واپس بلانے کا بھی موقع نہیں دیتے اور نہ ہی کسی سے معافی مانگنے کی اجازت دیتے ہیں یہ تیس سیکنڈ.سب کچھ تبدیل کر دیتے ہیں یہ تیس سیکنڈ. ہمیں خود سے دور کر دینے والے کس کمال خوبصورتی و ہنر سے یہ تمام کام سرانجام دیتے ہیں اور ہمیں قصوروار ٹھہرانے میں کامیاب رہتے ہیں اور وە آسانی سے ہر حوالے سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں.اے کاش کہ کبھی کسی کی زندگی میں یہ تیس سیکنڈ نہ آئیں کیونکہ وە شخص یہ کہتاہے کہ "میں نے کسی پر احسان نہیں کیا" اور صاف بچ نکلتا ہے اور ہمیں ایک عجیب کشمکش میں مبتلا کر دیتا ہے اور ہمیں ہماری ہی نظروں میں مجرم بنا کر اپنی راە لیتا ہے. از:۔ منیب اختر رضآ

جس طرف دیکھنا جدھر جانا
 مسکرا کر اداس کر جانا
 مشغلہ اپنی چاند راتوں کا
 دیکھنا خواب اور ڈر جانا

خواہش عظیم


پیغام صبا لائی ہے گلزار نبی سے
 آیا ہے بلاوا مجھے دربار نبی سے
 انسان کی زندگی میں اسکی لاتعداد خواہشیں،چاہتیں ہوتی ہیں جن کی تکمیل کے لیے وە تمام عمر جدوجہد کرتا رہتا ہے.کسی کو عہدے کی چاہت ہوتی ہے کسی کو دولت شہرت کی طلب ہوتی ہے کوئی طاقت چاہتا ہے کوئی خوشی کی تلاش میں رہتا ہے الغرض ہر فرد کی چاہت و خواہش کی نوعیت مختلف ہوتی ہے.لیکن کچھ خواہشیں مشترک ہوتی ہیں .کم از کم ایک خواہش جو تمام مسلمانوں میں رنگ ونسل ،فرقہ پرستی اور دوسرے اختلافات کے باوجود مشترک ہے .وە خواہش ہے الله اور اسکے حبیب صلی الله علیہ وسلم کے دربارمیں حاضری.اس خواہش کی تکمیل کی واحد شرط الله اور اسکے حبیب صلی الله علیہ وسلم کی طرف منظوری ہے.روپیہ پیسہ،استطاعت،لگن جذبہ اور عقیدت ثانوی حیثیت رکھتی ہیں. میں الله اور اسکے حبیب صلی الله علیہ وسلم کے اس لطف وکرم کا شکر ادا ہی نہیں کرسکتا کہ مجھ حقیر ادنی اور گناەگار پر میری اوقات حیثیت استطاعت طاقت اور عقیدت سے بڑھ کر عنایت کی.بس ایک ہی شعر بار بار میرے خیال میں گردش کر رہا ہے
 "میں اس کرم کے کہاں تھا قابل حضور کی بندە پروری ہے"
 انسان کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش جب پوری ہونے جا رہی ہو تو اس پر عجیب سا وجد و کیف طاری ہو جاتا ہے عجب سا سرور و اطمینان کا احساس رہتا ہے.الله کےاس بےشمار رحمت پر اور اپنی قسمت پر یقین نہیں ہوتا.کہاں میرے محدود عمل کہاں انکے لامحدود انعام؟ آپ سب سے التماس ہے کہ آپ میرے لیے دعا کریں میں بھی آپ سب کے لیے اس سفر حجاز کے دوران دعاگو رہوں گا۔
از:۔
 منیب اختر رضآ

Thursday 30 January 2014

منشا و امید


ہم تو موجود تھے راتوں میں اجالوں کی طرح
تم نے ڈھونڈا ہی نہیں ڈھونڈنے والوں کی طرح 
 کئی بار چیزیں ہماری مرضی کے مطابق نہیں ہوتیں .ہم جسکو اپنی موجودگی کا احساس دلانا چاە رہے ہوں وە ہمیں محسوس نہ کرنا چاہتاہو.جسکی نظر کرم کے ہم منتظر ہوں وە ہی نظر ہمیں نظرانداز کرے.جسکی توجہ حاصل کرنے کی خواہش ہو وہی اپنی توجہ کسی دوسری جانب مبذول کر لے.چراغ کی مانند ہم جگمگا رہے ہوں لیکن ہماری روشنی اس تک پہنچنے سے قاصر ہو یا یہ روشنی اس کے لئے کوئی معنے رکھتی نہ ہو.ہمارا وجود اسکے لئے نہ ہونے کے برابر ہو.ہماری شخصیت کا کوئی بھی پہلو اس کو متاثر نہ کر پائے جو ہماری ذات سے ہی بے نیاز ہو .جو ہماری آواز کو سن کر بھی ان سنا کر دے .جو ہماری بات کو ہی خاطر میں نہ لائے.جب کسی کو ہماری طلب ہی نہیں،اسکو ہماری حاجت ہی نہیں نہ ہماری توجہ کی ضرورت ہے اور نہ ہمیں حاصل کر لینے کی خواہش کہ وە کسی قسم کی جدو جہد کرے، تو ان تمام باتوں میں اس شخص کا قصور نہیں اصل مجرم تو ہم ہیں جو ایک محدود اور مجبور انسان سے لا محدود امیدیں لگائے بیٹھے رہتے ہیں .کوئی انسان چاہے ہماری نظر میں جتنا بھی عظیم کیوں نہ ہو وە خدا تو نہیں کہ وە ہماری ساری خواہشات کی تکمیل کی قدرت رکھتا ہو.جس طرح وە شخص معاشی طور پر غریب ہے کہ جس کے اخراجات اسکی آمدنی سے زیادە ہوں ویسے ہی ہم رشتوں کے معاملے میں تب غریب ہوتے ہیں کہ جب ہم کسی کی استطاعت سے زیادە اس سے امیدیں لگا بیٹھتے ہیں.لامحدود امیدیں صرف لا محدود ذات تک محدود رکھی جائیں تو ہی ہماری بھلائی ہے.ہمیشہ امیدکا محورالله کی ذات کو بنائیں سکون نصیب ہو جائے گا.                                                                                                                                      از:۔             
منیب اختر رضآ

اکثر لوگ ہمیں خصوصاً مجھے نصیحت کرتے ہیں "اتنا سوچا نہ کرو"لیکن وە خود اس سوچ میں گم ہوتے ہیں کہ ہم کیا سوچ رہے ہیں؟.سوچنے والوں کی دنیا....اور دنیا والوں کی سوچ ہمیشہ مختلف ہوتی ہے. از:۔ منیب اختر رضآ

Wednesday 22 January 2014

ہمارا خلوص ہمیشہ دوسرے شخص کے لیے ایک بارش کے قطرے کی مانند ہوتا ہے جو اس شخص کے وجود پر برس کر اسکو سکون مہیا کرتا ہے لیکن وە قطرە آخر پھسل کر اس شخص کے قدموں میں جا گرتا ہے اور آخر ہمارا خلوص اسکے قدموں تلے جذب ہوکر غائب ہو جاتا ہے اور اس دن ہمیں اس شخص کی نظر میں ہمارے خلوص کی اصل قدر و وقعت کا اندازا ہوتا ہے. از:۔ منیب اختر رضآ

Wednesday 1 January 2014

دسمبر سال کا آخری مہینہ اور دفتری اعتبار سے کھاتے بند کرنے(کلوزنگ) اور سالانہ جائزە (رپورٹ) مرتب کرنے کے حوالے سے بھی جانا جاتا ہے.اس مہینے میں ہر کوئی اپنے کاروباری سال میں ہونے والے نفع و نقصان اور دیگر امور کا جائزە لے کر ایک رپورٹ مرتب کرتا ہے اور دیکھتا ہے کہ کن کاموں میں فائدە ہوا اور کونسے کام روک کر نقصان سے بچا جا سکے یا کونسے ایسے امور ہیںکہ جن کا اضافہ ضروری ہے یا دیگر امور کی کارکردگی کیسی رہی.
کبھی میں سوچتا ہوں کہ ہم سال کے کسی حصے یا کم از کم اختتام پر اپنے رشتوں٬تعلقات٬روابط٬رویے٬سلوک اور اس جیسے دوسرے امور کا جائزە کیوں نہیں لیتے؟ہم کیوں اپنے رشتوں اور تعلقات کو اہمیت نہیں دیتے؟کیوں ہم اپنے رویوں برتائو اپنے دوسروں کے ساتھ سلوک کا تجزیہ نہیں کرتے؟کیوں ہم ٹوٹتے رشتوں اور محدود ہوتے ہوئے تعلقات کو خاطر میں نہیں لاتے؟کیوں ہم اس بات کا ادراک نہیں رکھتے کہ گزشتہ سال ہمارے تعلقات کس مقام پر تھے اور آج کس نہج تک پہنچ چکے ہیں؟کیوں ہم رشتوں میں کمی کے نقصان سے ناآشنا ہیں؟کیوں ہم سال کے بعد رشتوں میں آنے والی تبدیلیوں کی کوئی جائزە رپورٹ نہیں بناتے؟کیوں ہم ان کمزور ہوتے رشتوں یا تعلقات کو کم کرنے والے امور کو کیوں ترک کرنے اقدامات نہیں کرتے؟کیوں ہم اپنے دوسرے کے ساتھ بدلتے سلوک اور رویوں پر نظر ثانی نہیں کرتے؟کیوں ہم رویوں میں موجود سرد مہری کو گرم جوشی میں تبدیل نہیں کر پاتے؟کیوں ہم اپنے رشتوں اور رویوں میں نفرت،بد نیتی،بددیانتی اور حسد کے بیج بوتے ہیں؟کیوں ہم کسی کے خلوص،محبت اور پیار کو شک کی نگاە سے دیکھتے ہیں؟جانے کیوں ہم رشتوں کے نقصان کی پرواە نہیں کرتے اور کاروباری نقصان برداشت نہیں کرتے؟کیوں ہم بےحس ہوتے جا رہے ہیں؟
یہ سب ہمارے لالچ کا نتیجہ ہے.ہم الله سے بھی کاروبار کرتےہیں حالانکہ ہمارا کام اسکی اطاعت اور شکر گزاری ہے.ہم الله سے دنیاوی مال مانگتے ہیں خواہشوں کی تکمیل مانگتےہیں کاروبار کا
منافع مانگتےہیں لیکن کبھی الله سے اسکی قربت نہیں مانگتے اسکی نزدیکی کے طلبگار نہیں رہتے.جب الله ہمیں نوازتا ہے تو اسکی نوازش کو ہم اپنی مخنت کا صلہ مانتے ہیں اور اسکی آزمائش و امتحان پر اس سے گلہ کرتے ہیں .
دعا ہے کہ ہماری الله اور اسکے بندوں کے ساتھ رشتوں میں مظبوطی پیدا ہو اور ان کے ساتھ ہمارے رویوں میں مثبت تبدیلی آئے.آمین
              از:۔
            منیب اختر رضآ