Sunday 27 July 2014

Hasil.

احباب کچھ یوں چاہتوں کا ہمکو صلہ دیتے ہیں
 جرم خود کرتے ہیں مجرم ہم کو بنا دیتے ہیں
 انکے روبرو میری خوشیوں کا ذکر ہے بے معنی 
میرے دردو غم ہی ہیں بس جو انکو مزا دیتے ہیں
تیغ و تلوار نہیں پاس انکےنہ چڑھاتےہیں وە سولی 
 لہجہ و لفظ کے ہتھیاروں سے وە ہمکو سزا دیتے ہیں
 کون کہتا ہے وە کرتے ہیں فراموش عنایات ہماری
 گلے شکووں سے بس ان عنایات کی ہمکو جزا دیتے ہیں
 کانٹوں سےانہیں پیار پھولوں کو وە جلا دیتے ہیں 
وە احسان فراموش تو مخلصوں کو بھی بھلا دیتے ہیں
 وە ہیں بنجارے سبھی کےدل ہیں انکا مسکن 
افسوس اپنے دل میں کہاں وە ہمکو جگہ دیتے ہیں؟ 
اسی لیے ناز ہے آج تک ہم کو اپنی قسمت پر
 یاد تو کرتے ہونگےوە تبھی تو ہمکوبھلا دیتے ہیں 
ترش ہو جائے کسی سے لہجہ میری فطرت ہی نہیں
 مٹھاس رہتی ہے ان سے بھی جو ہمکو ایذاٴ دیتے ہیں 
ہر فرد کے ہوا کرتے ہیں معیار و ظرف جدا جدا 
خلوص مانگتے ہیں ہم ان سےوە ہمکو دغا دیتے ہیں
 ہم برے ہیں بہت اس بات کا احساس مجھے ہے مگر
 تب برا لگتا ہے جب وە اس بات کا احساس دلا دیتے ہیں
 انکو بھول جانا ہی بھلا یہ ہمیں یاد کہاں رہتا ہے؟
 شکریہ انکا وە یہی بھول ہمیں یادکرا دیتے ہیں
 دستور ہے انکا بٹھاتے ہیں جن کو وە سرآنکھوں پر 
نکل جاۂے مطلب توانہیں نظروں سے گرا دیتےہیں 
اور کیا دینگےہم انکو پاس ہمارےدینے کوبچا کیا ہے؟ 
خوشیاں چومتی رہیں قدم انکے ہم انکو دعا دیتے ہیں 
الفاظ کو جوڑنے سے فقط فقرے ہی بنا کرتے ہیں 
ہم تو اپنے احساس جوڑتے ہیں اور شعر بنا دیتے ہیں 
از:۔ منیب اختر رضآ