Wednesday 3 December 2014

زندگی میں ایسا مقام بھی آتا ہے کہ ہم سےناراض ہونے کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے.تب ہم بہت مشکل صورتحال سے دوچار ہوتے ہیں لیکن ہمیں ناراضی کا اظہار کرنا ہوتا ہے اور کوئی چارە نہیں رہتا.کیونکہ آپ اپنے اندر موجود سارے لفظوں جذبوں احساسات اور انسانوں سے وابستہ بھرم اور امیدوں کو آزما چکے ہوتے ہیں اب صرف بچتی ہے صرف خاموشی جسکو پھر ہم آزماتے ہیں لیکن آخری حل اور آخری حربہ ہے.خاموشی کسی کے دل میں ہماری محبت نہیں داخل کر سکتی.کیونکہ جو آپکے جذبوں اور لفظوں کی وجہ سے آپ سے محبت یا چاہت نہیں کرتے تو خاموشی ان کا کیا بگاڑ سکتی ہے؟یہ تو صرف دو پل کے لیے کسی کو سوچنےپرمجبور تو کر سکتی ہے مگر مستقل طور پر آپکا تابع نہیں کرسکتی.جب پھر دونوں جانب خاموشی کا راج ہوجائے تو پھر دلوں پر محبت نہیں انا حکومت کرتی ہے. 
                                                         از:۔ منیب اختر رضآ                                                      
ہم یہی سوچتے رہتے ہیں کہ وقت کتنی تیزی سے نکلتا جا رہا ہے لیکن میرے خیال سے جتنی تیزی سے ہمارے اندر سے خلوص،پیار،محبت،احساس اور صبروتحمل نکلتا جا رہا ہے اسکی رفتار وقت کے نکلنے سے کہیں زیادە ہے.ان سب چیزوں کے نکل جانے کے بعدانسان اور رشتے بھی (خواە کس بھی قسم کے کیوں نہ ہوں) کہاں پہلے جیسی مظبوطی سے قائم رہتے ہیں؟یہ بھی وقت کی ہی تیزی سے ہماری زندگیوں سے نکل جاتے ہیں.پھر ہم وقت کی رفتاراور رشتوں کے بدل جانے کا شکوە و شکایت بھی کرتےہیں مگر خود میں آئے بدلائو کا ذکر تک نہیں کرتے کہ جس بدلائو نے وقت کو تیزی سے نکلنے اور رشتوں کو بدلنے پر مجبور کیا. سارا قصور وقت کے بدلنے کانہیں وەبے چارە تو ازل سے ابد تک بدلتا رہے گا بدلتے رہنا اسکی فطرت بھی ہے اور فرض بھی بلکہ انسانوں کا بدل جانا اس سے بھی اہم ہے.ضروری نہیں کہ وقت کے بدلنے سے ہر بار انسان بدل جائیں کبھی تو دنیا بدل جانے پر بھی انسان نہیں بدلتے تو وقت کے بدلنے سے کیا بدلیں گے لیکن جب انسان بدل جائیں تو وە وقت بھی بدل دیتے ہیں رشتے بھی بدل دیتے ہیں حتٰی کہ دنیا بدل دیتے ہیں. 
از:۔ منیب اختر رضآ
ہم تو گستاخ بھی ہم توعیار بھی
 مغروربھی ہیں بہت اور مکار بھی
 وەعاجز بھی ہیں اور مجبور بھی 
خلوص و دردمندی کے شاہکار بھی 
از:۔ منیب اختر رضآ —