Saturday 21 December 2013

سالگرہ مبارک و سلام ٹیچر!

Happy Birthday Teacher!
سالگرہ مبارک و سلام ٹیچر!
ہماری زندگیوں میں شاید کچھ ہی لوگ اییسے ہوتے ہیں کہ جن کی عزت ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہتی ہے۔کچھ لوگ دلوں میں جگہ بنا لیتے ہیں اور ہمیشہ دل کے مکین بن جاتے ہیں۔کچھ لوگ ہمیں زندگی میں بہت کچھ دیتے ہیں لیکن بدلے میں ہم سے کچھ طلب نہیں کرتے۔ہم پر ان کے ڈھیروں احسان ہوتے ہیں لیکن کبھی وہ احسان جتلاتے نہیں۔ہم ہزار غلطیاں کرتے ہیں لیکن وہ تمام غلطیوں کو معاف کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ایسے لوگ شخصیت اور کردار ساز ہوتے ہیں۔ہماری شخصیت اور کردار ہمیشہ ان سے متاثر رہتا ہے انکا اثر رہتا ہے ہم پر۔وہ عظیم لوگ ہوتے ہیں جو ہماری کامیابی کا وسیلہ ہوتے ہیں۔ہماری ہر کامیابی ان کے دم سے ہوتی ہے لیکن ہم ان کو فراموش کر دیتے ہیں ان کے احسانوں کو بھلا دیتے ہیں اورانکی قدر انکی موجودگی میں نہیں کرتے لیکن وہ ہم سے دور ہو جاتے ہیں۔تو ہمیں ان کی قدر ہوتی ہے ان کی اہمیت کا انکی ہمارے لیے دی گئی بے لوث قربانیوں کا احساس ان کے جانے کے بعد ہوتا ہے اور پھر سوائے افسوس کے ہمارے دامن میں کچھ باقی نہیں رہتا۔
آج ایک ایسا ہی دن ہے ایک ایسی شخصیت کی سالگرہ کا دن کہ جس نے ہمیشہ ہمیں دیا اور بدلے میں کسی چیز کی خواہش نہیں کی۔اس شخصیت سے ہمارا کوئی خونی رشتہ تو نہیں لیکن وہ ہمارے لیے ان کی اہمیت خونی رشتوں سے بڑھ کر ہے۔ہمیں آج اسے بات کے اعتراف میں کوئی شک نہیں کہ آج ہم جو کچھ بھی ہیں انہی کی بدولت ہیں۔اگر ہم میں ایک بھی اچھائی ہے تو وہ ان کی وجہ سے ہے اور اگر ہم میں کوئی برائی ہے تو وہ صرف اور صرف ہماری وجہ سے ہے۔وہ ہمارے لیے اللہ کی طرف سے بیش قیمتی انعام ہیں۔وہ شخصیت کوئی اور نہیں ہمارے ٹیچر/استاد ہیں۔
ہم دعا ہیں کہ اللہ انکو ہمیشہ خوش رکھے جس طرح انہوں نے ہمیں خوش رکھا ہم سے محبت کی ہمارا خیال رکھا ہماری تربیت کی ہمیشہ ہمیں اچھے مشورے دیے ہمیں برائیوں سے دور رکھنے کے عملی اقدامات کیے۔اللہ انکو ہمیشہ کامیابیاں عطا کرے۔آمین!
میں ایک بارپھر انکو سالگرہ مبارک کہتا ہوں اور انکے لیے دعاگو بھی ہوں۔ان کے احسانات کا بدلہ ہم نہیں دے سکتے اللہ ہی ان کو انکی مخنت لگن خلوص اور نیک نیتی کا اجر دے آمین۔ 

دھند اور روشنی

اپنے کمرے کی کھڑکی سے دھند کو بڑھتے دیکھنا اورکسی سنسان سڑک پر تیزی سے اترتی پھیلتی دھند کی شدت کو محسوس کرنا دونوں مختلف تجربات ہیں۔کمرے کے گرم ماحول میں کھڑکی سے بڑھتی دھند کو دیکھنا بھلا معلوم ہوتا ہے اور انسان اس نظارے سے لطف اندوز ہوتا ہے لیکن اگر ہم اپنے کمرے سے باہر کسی کھلی جگہ پر اترتی اور پھیلتی اور اترتی دھند کے درمیان موجود ہونا زیادہ خوشگوار احساس نہیں ہوتا۔گزشتہ رات اتنی شدید دھند تھی اور اتنی تیزی سے پھیلتی دھند میں نے پہلی بار نا صرف دیکھی بلکہ اس دھند میں موجود یخ بستگی ٹھنڈک سراب سردی اورغیر واضح منظر کو عملی طور پر محسوس کیا۔حد نظر تقریبا ایک فٹ سے زیادہ نہ تھی اور ہوا میں موجود نمی کی مقدار اتنی زیادہ تھی کہ وہ نمی ہاتھوں اور منہ پر قطروں کی مانند ساکن ہو جاتی تھی اور کپڑے ایسے تھے کہ جیسے ہلکی بارش کے بعد ہلکے سے گیلے ہوجاتے ہیں۔
اس دھند سے گزرتے میں یہ بات شدت سے سوچ رہا تھا بلکہ محسوس کر رہا تھا کہ ہمارے دوستوں اور عزیزواقارب کے درمیان موجود رشتوں اور تعلقات کی نوعیت بھی اس دھند کی مانند ہی تو ہے کہ جب تک ان دوستوں اور عزیزوں کی محبت پیار خلوص اور قرب ہمارے ساتھ رہتا ہے تو ہم خود کو اس گرم کمرے میں موجود پاتے ہیں جہاں سے باہر موجود دھند بھی معلوم ہوتی ہے۔لیکن جب یہ دوست اور عزیز آپ سے کسی بھی وجہ سے ہم سے دور یا بے نیاز ہوجاتے ہیں یا ہمیں نظر انداز کرتے ہیں یا انکا خلوص پیار اور محبت ہمارے لیے پہلے سا نہیں رہتا یا ان کے رویے میں موجود سردمہری عیاں ہوجاتی ہے تو ہم اچانک اس گرم کمرے سے نکل کر اس شدید اترتی پھیلتی دھند کے درمیان آ جاتے ہیں جب ارد گرد کچھ نظر نہیں آتا جب حد نظر صفر ہو جاتی ہے جب ہوا میں موجود نمی آپکے چہرے پر آنسوئوں کی مانند ٹھہر جاتی ہےاوریہ نمی آپکے کپڑوں کو گیلا کردیتی ہے آپکے ہاتھ یخ بستہ ہو کر حرکت سے محروم ہو جاتے ہیں۔جب ہم اس سرد ماحول میں ٹھٹھر رہے ہوتے ہیں اور پرانے وقتوں کے کو یاد کرتے ہیں اس گرم کمرے کو یاد کرتے ہیں اس پیار محبت اور خلوص کی حرارت کو یاد کرتے ہیں آنسو آپکی آنکھوں میں تو ہوتے لیکن وہ بھی اس ٹھنڈ میں آپکی آنکھوں میں ہی جم جاتے ہیں۔آپ خود کو تنہا محسوس کرتے۔کچھ نظر نہ آنے کے باعث آپ ہر طرف اندھیرا محوس کرتے ہیں آپ خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں پھر دل میں ہی اللہ سے اس کے بارے میں گلے شکوے کرتے ہیں۔اللہ سے ان تمام حالات کی اور اپنی قسمت کی شکایت کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں "اے اللہ ہمارے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے ہم نے تو کبھی بھی کسی کی ساتھ برا نہیں کیا پھر ہماری قسمت میں ایسے دن کیوں لکھے گئے؟ہم تو سب میں پیار محبت اور خلوص بانٹتے رہے پھر ہماری قسمت میں یہ نفرت یہ دغا یہ خود غرضی یہ لا تعلقی یہ بے نیازی کیوں؟کیوں ہمیں ہی نظر انداز کیا جاتا ہے؟"    پھر اسی دوران اچانک ہی ہمیں اس دھند میں ایک مدھم سی موہوم سی روشنی دکھائی دیتی ہے ہماری آنکھیں اس روشنی کو نہیں دیکھ سکتیں لیکن ہمارا دل اس روشنی کی چھوٹٰی سی کرن کو دیکھ سکتا ہے۔۔پھر ہم اس روشنی کی جانب چلتے ہیں اور چلتے ہیں ایک یقین کے ساتھ ایک اعتماد کے ساتھ ۔ہمارا دماغ اس چیز کو قبول نہیں کرتا لیکن ہمارا دل اس روشنی کی جانب سفر کرنا چاہتا ہے اور ہمارا وجود ہمارے دل کا ساتھ دیتا ہے اور ہم اسی سمت چلتے ہیں اس شدید دھند میں اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں۔جوں جوں ہم اس جانب جاتے ہیں تو یہ روشنی بڑھتی ہے اور قدرے واضح ہونے لگ جاتی ہے اور آخر کار اس روشنی کے قریب پہنچ جاتے ہیں اور وہاں پہنچ کر ہمیں پتا چلتا ہے کہ یہ وہ روشنی ہے جو ہمارے اندر کی روشنی ہوتی ہے جو اللہ تعالی نے ہر انسان کو عطا کی ہوتی ہے۔یہ روشنی ایک آگ کا آلائو ہوتا ہے جو اس اندھیرے میں روشنی بھی دیتا ہے اور اس سردی میں حرارت بھی۔یہی وہ روشنی ہے کہ جو ہمیں اللہ تک پہنچنے میں مدد دیتی ہے۔یہی وہ روشنی ہے کہ جس سے ہم شداد دھند میں بھی دور تک دیکھ سکتے ہیں۔یہی وہ روشنی ہے جو ہمیں ہم سے روشناس کراتی ہے۔اس روشنی کو پا لینے کے بعد ہمیں کسی دوست یا عزیز کی لا تعلقی اور بے نیازی سے کوئی سروکار نہیں رہتا نہ ان کے رویے کی پرواہ رہتی ہے انکی توجہ کی ضرورت نہیں رہتی انکے قرب کی چاہت بھی نہیں رہتی۔
اس سب کے بعد پھر ایک ہی چاہت رہ جاتی ہے ایک ہی خواہش رہ جاتی ہے ایک ہی تمنا رہ جاتی ہے ایک ہی منزل رہ جاتی ہے۔اللہ کے قرب کو حاصل کرنا اسکی خوشنودی حاصل کرنا اسکی مخلوق کی بھلائی کرنا۔
                                               تحریر از:-
                                               منیب اختر رضا                     

Tuesday 17 December 2013

حقیقی دوست

کچھ باتیں جب تک ہم نہیں جان لیتے ہم مطمئن و پر سکون رہتے ہیں لیکن انسان کا تجسس اس کے چین و سکون کا دشمن ہوتا ہے.ہم ہر بات جاننا چاہتے ہیں عجیب سی بےچینی کی کیفیت طاری رہتی ہے حالانکہ کئی بار کسی بات کا علم ہونا خطرناک و نقصان کا باعث ہوتا ہے لیکن پھر بھی ہم اسی تگ و دو مین رہتے ہیں کہ وە بات ہمیں معلوم ہو جائے


جب ہمیں اس بات کاعلم ہوجاتا ہے تو ہم اس بات کو برداشت نہیں کر پاتے اور ایک کانچ کی طرح ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں کرچی کرچی ہوکر دور تک پھیل جاتے ہیں.پھر ان کرچیوں کو دیکھتے ہیں ہر ایک کرچی میں گزرا ہو کل دیکھتے ہیں ماضی کی یادیں ااور واقعات کا احوال ان میں نظر آتا ہے کچھ مستقبل کی دھندلی سی جھلک بھی ہمارے سامنے ہوتی ہے.پھر اپنی بے بسی کا عکس ن کرچیوں میں صاف ظاہر ہوتا ہے






انسان کا ٹوٹنا یا ٹوٹ کر کرچیوں کی مانند بکھرنا کسی دوسرے انسان کو نظر نہیں آتا بلکہ کچھ صاحب نظرہی اسکومحسوس کر سکتے ہیں.یہ تو احساس کی بات ہے.کبھی کبھی آپکے بہت عزیز قریبی یا آپکو مکمل طور پر جاننے والے یا آپکو قریب سے دیکھنے کا دعوی کرنے والے دوست آپکی اندرونی کیفیت سے ناواقف وناآشنا رہتے ہیں اورکچھ اجنبی لوگ 
آپکی اندرونی کیفیت کو جان جاتے ہیں اور آپ حیران رە جاتے ہیں اور افسوس بھی ہوتا ہے
اس دن آپ پر آشکار ہوتا ہے کہ ان دوستوں عزیزوں نے آپکے حوالےسے ہمیشہ جھوٹ بولا ہے انکا پیار خلوص دکھاوے کی حد تک تھا انہوں نے تو کبھی آپکی شخصیت کو سمجھا ہی نہی نہ کبھی آپکے دل یا ذات میں جھانکنے کی کوشش کی ہے لیکن دعووں کی حد تک وە انتہائی مخلص،احساس مند اور پیار کرنے والے ہوتے ہیں


وە دن آپکی دوستی میں موجود ہر خامی کی وضاحت کر دیتا ہے ان جھوٹے دعووں کو بے نقاب کردیتا ہے.پھر آپکو خود پر افسوس ہوتا ہے.آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپکا ان کے لیے پیار،محبت خلوص بھلائی اور احساس سب کچھ بے معنی تھا.آپکو اپنی ذات پر غصہ آتا ہے بےبسی محسوس ہوتی ہے.پھر آپ رونا چاہتے ہیں زاروقطار رونا.اپنی بے بسی پر اپنی قسمت پر اپنے اس طویل تعلق پر کہ جس میں آپکے خلوص اور ذات کو استعمال کیا گیا ہے اپنے مفاد کے لئے اپنے وقتی فائدے کےلیے

اس سب کے بعد جب انسان سخت مایوس ہوتا ہے دلبرداشتہ ہوتا ہے تو اس ذات کے روبرو پیش ہوتا ہے جو صحیح معنوں میں اسکی دوست اورخیرخواە ہوتی ہے.وە ذات انسان کےظاہر و باطن کو جانتی ہے.اسکے حضور نہ دھوکہ ہے نہ فریب بس ہے تو پیار محبت خلوص کرم رحمت اور بےشمار عنایات.انسان پھر ان زبانی کلامی اور مطلبی و مفاد پرست کا شکر گزار ہو جاتا ہے اور احسان مند بھی کہ یہ لوگ انسان کے اپنے حقیقی دوست کی تلاش و ملاقات کا سبب و وسیلہ بنے.انسان کا اصل
دوست تو الله ہے جو انسان کو خلوص کا صلہ بھی دیتا ہےاور مصیبت میں انسان کی مدد رہنمائی و دلجوئی بھی کرتا ہے




نوٹ:۔ یہ تحریر ان تمام دوستوں کے نام جنہوں نے الله کی طرف رجوع کرنے کا موقع پیدا کیا.میں آپکا شکر گزار ہوں الله آپکو خوش رکھے آمین


از:۔
منیب اختر رضآ

Wednesday 11 December 2013

لا شعور اور شعور!



           

اللہ نے انسان پر بے شمار احسانات کیے ہیں اور جسے بھی دیا ہے بغیر کسی حساب کے دیا ۔انسان کو عقل دی شعور دیا اور علم جیسےانعامات کی بارش کر دی۔ان سب چیزوں کے ساتھ ساتھ انسان کو لا شعور بھی عطا کیا۔لا شعور ہے کیا؟لا شعور وہ ہے جس کا شعور کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہو۔لا شعور وہ ہے کہ جس تک انسان کا شعور اور عقل پہنچنے سے قاصر ہے۔لاشعور بھی اسی دماغ کا حصہ ہے کہ جس کے ساتھ شعور اور عقل کا تعلق ہے۔یہ بھی اللہ پاک کی اس وسیع و بے پناہ قدرت کا عظیم مظہر ہے کہ انکا تعلق ایک چیز سے ہونے کے باوجود کام اور نوعیت کے اعتبار سے یہ ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں اور ایک ساتھ رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے پر اثر انداز نہیں ہوتے۔
لاشعور بنیادی طور پر وہ رد عمل ہے کہ جس پر نہ تو انسان کا قابو ہے اور نہ ہی عمل دخل۔مثلا سوئی کی چبھن محسوس ہونے پر ہاتھ کو فورا پیچھے کرنا ایک لا شعوری اور غیر ارادی ردعمل ہے جس کا شعور اور عقل سے کوئی واسطہ نہیں۔لاشعور انسانی دماغ کا وہ حصہ ہے کہ جسکو اللہ تعالی کی طرف سے انسان کی پیدائش کے روز سے ہی ایک خاص ترتیب میں مرتب یا "پری پروگرام" کر دیا ہے اور یہ انسان کی وفات تک تقریبا بنیادی طور پر اسی حالت میں موجود رہتا ہے۔
ہم اگر غور کریں یا ہم نے کبھی دیکھا ہو کہ جب عورتیں روتی ہیں یا افسردہ ہوتی ہیں تو وہ اکثر اپنے ہونٹوں پر یا اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیتی ہیں۔اسی طرح مرد جب دکھی ہوتے ہیں یا روتے ہیں تو وہ اپنے ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھ دیتے ہیں۔یہ ایک لاشعوری یا غیر ارادی ردعمل ہوتا ہے جس میں عقل یا شعور سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔اب یہ کوئی اتنی اہم بات نہیں ہے۔لیکن اگر سوچا جائے تو یہ ہمارے لاشعور کی سچائی اور معصومیت ہے۔ہمارا لاشعور ہماری برائیوں کے ذرائع یا ماخذ کو جانتا ہے اور جذبات کے اظہار کے دوران ہاتھوں سے چھپا دیتا ہے۔اب یہ بھی سچ ہے کہ عورتوں کی زبان اور مردوں کی آنکھیں برائی یا فساد پیدا کرنے کے ذرائع ہیں اور ہمارا لاشعور اس بات کو بخوبی جانتا ہے اور اظہار جذبات کے دوران ردعمل کے طور پر ان ذرائع کو ہاتھوں سے ڈھک دیتا ہے۔۔
شاید ہم خود بھی اس تجربے سے گزر چکے ہیں اور یہ غیر ارادی ردعمل ہمارے ساتھ بھی ہوچکا ہو۔اس عمل کو روکنے میں ہم  بے بس ہوتے ہیں ہم چاہتے ہوئے بھی اپنے ہاتھوں کو نہیں روک سکتے۔۔ہمارا لاشعور ہمارے برائی کے ذرائع کا ادراک رکھتا ہے اس لیے یہ عمل گیر ارادی طور پر ظاہر ہوتا ہے۔چونکہ ہمارا لاشعور ملاوٹ سے پاک ہوتا ہے اسی لیے وہ ہمیشہ کھرا اور سچا ردعمل دیتا ہے۔
میرے نزدیک عورتوں کی زبان اور مرد کی نظر برائی کے آغاز کے ذرائع ہیں۔اگر عورت اپنی زبان کی حفاظت کرے حفاظت سے مراد حفاظتی حصار نہیں بلکہ اسکے استعمال میں اعتدال اور اسکو قابو کرنے کا نام ہے۔کیونکہ جب ایک عورت کی زبان چلتی ہے تو نہ وہ غیبت سے باز آتی ہے نہ وہ چغلی سے باز آتی ہے اور نہ وہ حسد کے اظہار کو روک پاتی اور یہ زبان جو اللہ کی دی ہوئی نعمت ہے وہ برائی کا ماخذ بن جاتی ہے۔
بالکل اسی طرح مرد کی نظر ہے اسکی حفاظت بھی اشد ضروری ہے۔اب یہاں حفاظت سے مراد آنکھوں کا بند کر لینا نہیں بلکہ ان میں حیا پیدا کرنا ہے ان کو جھکا لینا مقصود ہے۔کیونکہ اگر مرد کی نظر میں حیاء نہ ہو پاکیزگی نہ ہو تو اسکی اور حیوان کی نظر میں کوئی فرق نہیں۔مرد کی نظر پاک نہ ہو تو وہ پاک چیزوں کو بھی ناپاک کر دیتی ہے۔وہ جائز کو بھی ناجائز کے طور پر دیکھنا شروع کر دیتا ہے۔مرد سنی سنائی غلط فہمی پر اتنی جلدی یقین نہیں کرتا جتنی جلد وہ آنکھوں دیکھے وہم ،غلط فہمی یا نظر کے فریب پر یقین کر لیتا ہے۔انہی آنکھوں سے وہ دوسروں کو برائی کی طرف راغب کرتا ہے۔پرد ہر چیز کو اپنی نظر کی کسوٹی پر تولتا ہے۔اس طرح وہ اللہ کی دی ہوئی نعمت کو برائی کا ابتدائی ذریعہ بنا دیتا ہے۔
لاشعور میں ایک معصومیت ہوتی ہے فطری معصومیت۔ایسی معصومیت جو خدا تعالی نے ہماری پیدائش کے ساتھ ہی عطا کی ۔اللہ کی طرف سے حاصل شدہ خالص معصومیت ،خلوص اور سچائی۔
ہم اکثر ایک محاورہ استعمال کرتے ہیں۔۔۔"بچے من کے سچے"۔۔بچے کیوں من کے سچے ہوتے ہیں۔ان کی ہر ادا میں معصومیت ہوتی ہے پیار ہوتا ہے ملنساری ہوتی ہے خلوص ہوتا ہے عاجزی ہوتی ہے۔انکا ہر عمل تمام اقسام کی شعوری ملاوٹوں سے پاک ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ ہر قسم کی مکاری،دھوکے،فریب،دکھاوا،حسد،انا اور چالاکی کا شعور نہیں رکھتے۔انکا شعور ابھی ابتدائی مراحل میں ہوتا ہے اور وہ ان شعوری برائیوں سے آگاہ نہیں ہوتے۔جوں جوں وہ بڑے ہوتے ہیں انکی عمر میں اضافہ ہوتا ہے انکے تجربات بڑھتے ہیں اور انکا شعور پختہ ہوتا ہے تو یہ شعوری برائیاں ترقی کرتی ہیں۔
لاشعور پر انسان کا مکمل قابو تو نہیں ہوتا لیکن انسان وقت کے ساتھ ساتھ اسکی ہیئت تبدیل کرنے اور اس میں اضافہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ہم جو کام روزانہ کی بنیاد پر کرتے ہیں یعنی پیشہ وارانہ کام۔ان کاموں کا طویل عرصے تک تسلسل بھی انہیں ہمارے لاشعور میں شامل کر دیتا ہے۔اب ایک عام مثال ہے کی جب ہم کلیدی تختی (کی بورڈ) کے ذریعے کچھ لکھنے کے لیے اس پر موجود گھنڈی (بٹن) دباتے ہیں تو ہم بغیر دیکھے ہوئے بھی مطلوبہ گھنڈی (بٹن) کو دباتے ہیں۔شاز و نادر ہی کوئی غلطی کرنا ہے کیونکہ اس کام ے تسلسل اور مشق مسلسل اس عمل کو ہمارے لاشعور میں شامل کر دیتی ہے اور عدم توجہ کے باوجود بھی اس کام سے مطلوبہ نتائج حاصل کر لیتے ہیں۔
اگر ہم کوئی برائی بھی متواتر اور مسلسل بنیادوں پر کرتے ہیں توہ بھی کسی نہ کسی صورت ہمارے لاشعور میں شامل ہو جاتی ہے۔ممکن ہے کہ اسکی شمولیت قلیل سطح پر ہی کیوں نہ ہویہ ہمارے لاشعور پر ضرور اثر انداز ہوتی ہے۔لیکن ہمارا فطری لاشعور ہمیشہ اس نووارد شمولیت پر حاوی رہتا ہے۔
لاشعور کیوں اہم ہے؟اسکا جواب کچھ یوں ہے کہ لاشعور ہی ہے جو کسبی بھی چیز کے بارے میں تیز ترین ردعمل کا مظاہرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔مثلا اگر کوئی ہمارے پیشے یا کاروبار سے متعلقا سوال کرتا ہے تو ہم اسکا جواب انتہائی تیزی سے دیتے ہیں اور بسا اوقات سوال کے مکمل ہونے سے پہلے ہی ہمارا جواب حاضر ہوتا ہے۔بات صرف پیشہ وارانہ امور تک محدود نہیں بلکہ اچھے برے اور سچ جھوٹ کے بارے میں پہلا فیصلہ بھی ہمارا لاشعور ہی کرتا ہے۔اللہ تعالی نے ان چیزوں موازنے کی فطری صلاحیت لاشعور کو پہلے روز سے ہی عطا کر دی ہے لیکن ہماری چالاکیوں اور مکاریوں اور منافقت نے اسکی اللہ کی طرف سے عطا کردہ صلاحیتوں کو دھندلا دیا ہے۔
لاشعور کے بارے میں تو ہم کافی بحث کر چکے۔اب کچھ شعور کا بھی مختصر سا ذکر ضروری ہے۔
شعور کیا ہے اور یہ کیا کام کرتا ہے؟یہ کچھ شعور کے حوالے سے بنیادی سوالات ہیں۔شعور نام ہے آگہی کا ،معلومات کا،نقطہءنظر کا،سوگ کے انداز کا اور کسی حد تک ہمارے احساس کا۔
شعور کی ابتدا ہوتی ہے ہمارے بچپن سے جب ہم ہوش سنبھالتے ہیں تب ہمارا شعور ابتدائی مراحل میں ہوتا ہے۔جب ہم چیزوں کے بارے میں آگاہی حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔اپنا نقطہ نظر تخلیق کرتے ہیں۔جب ہم اپنی سوچ کا زاویہ متعین کر رہے ہوتے ہیں۔جب ہم اشیاء لوگوں اور حالات کے بارے میں اپنی رائے قائم کر رہے ہوتے ہیں۔شعور وقت کے ساتھ ساتھ ترقی بھی کرتا ہے اور اس میں تبدیلی بھی آتی رہتی ہے۔ہمارے شعور کی تخلیق اور نشوونما میں بنیادی کردار ماحول اور ہماری سوچ پر ہوتا ہے۔ہم جو اپنے ماحول سے سیکھتے ہیں اور اس کو جس اندازنظر یا "اینگل" سے دیکھتے ہیں وہ ہمارے شعور کی تخلیق کرتا ہے۔انسان کا بنیادی شعور اسکے والدین،اساتذہ،دوستوں،عزیزواقارب اور ان لوگوں سے حاصل ہوتا کہ جن سے اسکی بچپن میں کسی نہ کسی حوالے سے ملاقات ہوتی ہے۔انسان جس ماحول میں اپنا بچپن گزارتا ہے وہ بھی اسکے بنیادی شعور کی سمت متعین کرتا ہے۔ایک نہایت دلچسپ بات کہ یہاں ایک شعور دوسرے شعور پر اثر انداز ہوتاہے۔ایک انسان کا شعور اسکے قریب رہنے والے دوسرے انسان کے شعور کو کسی نہ کسی حوالے سے ضرور متاثر کرتا ہے۔
ایک بات تو ہم جانتے ہیں کہ ہمارا لشعور تقریبا ویسا ہی رہتا ہے جیسا کہ اللہ نے ہمیں ہماری پیدائش کے وقت عطا کیا ہوتا ہے اور یہ ہمارے قابو میں نہیں ہوتا۔لیکن شعور وہ ہے کہ جس پر ہم پورا اختیار رکھتے ہیں۔ہم جیسا چاہیں ویسا شعور حاصل کر سکتے ہیں اچھا یا برا۔ہم شعور کے حصول کے معاملے میں آزاد ہیں۔یہ ہماری صوابدید ہے ہمارا اختیار ہے کہ ہم چاہیں تو بری صحبت سے اچھی باتیں سیکھیں یا اپنائیں یا اچھی محفل میں رہتے ہوئے بھی منفی سوچوں کو پروان چڑھائیں۔اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ کس چیز کے حصول کا متلاشی ہے۔اگر ہم کوئلے کی کان میں ہیرے ڈھونڈنے کی نیت سے داخل ہوں تو ہمیں ہیرے ہی حاصل ہوں گے چاہے اس کوشش میں ہم خود کالے ہو جائیں۔یہ ہماری اپنی نیت ہے اپنا شعور ہے اور اپنا اختیار۔
شعور بذات خود برا نہیں بلکہ اسکو حاصل کرنے کی سعی کرنے والا یا اس کا تخلیق کرنے والا انسان قصور وار ہوتا ہے۔کیونکہ انسان خود ہی اس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اسکو کس سمت میں لے کر جانا چاہتا ہے۔شعور کے حوالے سے کسی بھی قسم کی ناکامی کا ذمہ دار معاشرہ یا حلقہ احباب نہیں بلکہ وہ فرد خود ہوتا ہے۔
ہم اپنےدشمنوں اور ناپسندیدہ لوگوں کے لیے ان میں شعور پیدا ہونے کے لیے اللہ سے دعائیں مانگتے ہیں اس ات سے بے خبر کہ ہمارا شعور اس قابل بھی ہے کہ اسے شعور کہا جا سکے۔۔ شعور ہمیشہ منزل اور اسکی طرف جانے والے راستوں میں سے درست راستے کا تعین کرتا ہے۔لیکن اس عمل میں شعور کے ساتھ ساتھ نیت اور منزل کی نوعیت کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔
جہاں شعور کی حدود ختم ہوتی ہے وہاں سے لاشعور کی سلطنت کا آغاز ہوتا ہے۔کئی مرتبہ ہمارے شعور کے کئے گئے فیصلے ناکام ہوتے ہیں جبکہ لاشعور اسکے مقابلے میں درست فیصلے کرتا ہے۔۔
لا شعور انسان کو عطا کردہ اللہ کی بیش بہا نعمت ہے۔کیونکہ لاشعور میں انسان کی اصلی معصومیت پنہاں ہے۔وہ معصومیت جس کو اللہ تعالی بھی پسند فرماتا ہے۔کیونکہ لاشعور میں کوئی مکاری نہیں کوئی جھوٹ نہیں۔اس میں خلوص ہے پیار ہے انسانیت ہے جزبہ ہے احساس ہے اور سب سے بڑھ کر اسکی ایک خوبی ہے۔توکل کی خوبی۔اللہ کی ذات پر توکل کی خوبی۔
جب انسان کسی مصیبت،دکھ یا تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ اپنے شعور کے مطابق اس پریشانی کے سدباب کے لیے سوچتا ہے فکر کرتا ہے۔لیکن لاشعور کے پاس ایک آسان حل ہر وقت موجود ہوتا ہے۔وہ اس پریشانی کو اللہ پر چھوڑ دیتا ہے۔
ہمارا لاشعور ایک ایسا کام کرتا ہے جسکی وجہ سے وہ شعور سے زیادہ افضل ہوجاتا ہے۔ہم تمام عمر شعور و عقل کے حصول میں صرف کر دیتے ہیں۔اعلی تعلیم حاصل کرتے ہیں اچھی محفلوں میں بیٹھتے ہیں،مشاہدے کرتے ہیں غور و فکر کرتے ہیں اعلی خیالات کی تخلیق کرتے ہیں۔اللہ سے عقل و شعور میں اضافے کی دعائیں کرتے ہیں لیکن پھر بھی ان تمام باتوں کوششوں جدوجہد کے باوجود ہمارا شعور اس مقام پر نہیں پہنچ پاتا جہاں ہمارا لا شعور ہوتا ہے۔
اسکی پہلی وجہ اسکی اللہ کی جانب سے تخلیق اور اسکا مقرر کردہ معیار ہے اور دوسری اہم وجہ اپنے خالق کی ذات پر اعتماد،یقین،بھروسہ،اعتبار اور اس پر پختہ ایمان ہے ۔اسکی چھوٹی سی مثال ہے کہ جب ہم پر اچانک کوئی مصیبت،پریشانی یا کوئی آفت آتی ہے تو ہماری زبانوں سے یہ کلمات جاری ہوتے ہیں۔"یا اللہ خیر"   "یا اللہ مدد"  "الہی کرم فرما"۔۔۔۔یہ کچھ ایسے کلمات ہیں جو ہمارے لاشعورسے ادا ہوتے ہیں۔ہمارے شعور سے بھی پہلے۔ہمارے شعور کے سوچنے سے بھی پہلے ۔شعور کے ردعمل ظاہر کرنے سے بھی پہلے ہمارا لاشعور اس ذات کو یاد کرتا ہے یا مدد کی دعا ہے جو رب العالمین ہے جو مشکل کشا ہے جو مسبب الاسباب ہے۔جس ذات کے لیے کوئی کام بھی مشکل نہیں۔ہمارا لاشعور ہمیشہ ہمارے شعور کو اور ہمیں اللہ سے جوڑے رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔
مصیبت میں سب سے پہلے ہمارا لشعور ہی اس مصیبت کا حل تجویز کر دیتا ہے اور وہ ہم سے اور ہمارے شعور سے مخاطب ہو کر کہتا ہے۔۔۔"اے نادان انسان پناہ مانگنی ہے تو اپنے رب سے مانگ،مسئلے کا حل مانگنا ہے تو اپنے رب سے مانگ،مدد مانگنی ہے اپنے رب سے مانگ،کسی کا قرب مانگنا ہے تو اپنے رب کا قرب مانگ۔کیوں تو اپنے محدود شعور کے پیچھے بھاگتا پھرتا ہے جسے اپنا ادراک خود نہیں ہے۔"
لیکن ہم تمام "عقلمند" ،"تعلیم یافتہ"،"عظیم" اور "صاحب غوروفکر" انسان اپنے لاشعور کے تجویز کردہ آسان ترین حل کو چھوڑ کر اپنے "محدود " عقل و شعور سے اس مصیبت کا حل دریافت کرنےمیں مصروف ہو جاتے ہیں۔یہی ہماری سب سے بڑی ناکامی ہے۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ایسا شعور دے جسکی ابتدا بھی اسی کی ذات ہو اور انتہا اسی کا قرب و عشق۔۔۔آمین۔!


                                                    از:-
                                             منیب اختر رضآ

    

Monday 9 December 2013

ثبوت


بڑے دکھ کی بات ہوتی ہے جب آپ کسی پر اندھوں کی طرح اعتماد کرو اور پھر وہ آپ کو واقعی ہی ثابت کر دے کہ آپ اندھے ہو. 

محبت حاصل نہیں عطا


پیار،خلوص اور محبتیں بھیک میں نہیں ملا کرتیں کہ انسان در یار کے باہر کشکول لےکر دھونی رما کر بیٹھ جاۓ۔یہ تو نصیب ،حالات اور دینے والے کی مرضی پر منحصر ہے۔کبھی تو چند بوندیں ہی سیراب کرنے کے لیے کافی ہوتی ہیں اور کبھی بھرپورساون بھی ناکافی ہوتا ہے۔
کبھی انسان ہجر کے بیابان صحرا میں پوری عمر یاد کےسہارے بھٹکتا رہتا ہے لیکن منزل مراد تک نہیں پہنچ پاتا۔اور دیدکی پیاس شدت سے نڈھال کیے رکھتی ہے۔
کبھی دو قدم چلنے کی زحمت بھی نہیں ہوتی اور وصال کی حسین وادی کے نظارے پلکیں بچھاۓ استقبال کرتے ہیں اور دیدار کی بارش تن من کو پوری طرح بھگو کر سرشار کردیتی.
کبھی ایک اور کیفیت بھی درپیش رہتی ہے مجبوری کی کیفیت.منزل پر پہنچ کربھی منزل کے دور ہونے کی کیفیت.ساتھ ہوتے ہوۓ بھی دوری کیفیت.طاقت ہوتے ہوۓبھی مجبوری کی کیفیت.وصال ہوتے ہوۓ بھی ہجر کی کیفیت.
از:۔
منیب اختر رضآ

ںامعلوم مقام عزت


کبھی کبھی آپ اس بات سے انجان ہوتے ہیں کہ آپ کسی کی نظر میں کیا عزت و مقام رکھتے ہیں.آپ نہیں جانتے کہ کب کسی لمحے میں اس شخص سے کہے گۓ کچھ پر خلوص الفاظ یا فقرے کس حد تک اس شخص کی زندگی پر اثر انداز ہو تے ہیں اور اسکی شخصیت پر گہرے نقوش چھوڑ جاتے ہیں.
پھر آپ ایک عرصے تک اس خوشگوار حیرت میں مبتلا رہتے ہیں کہ وە شخص مجھ سے اسقدر متاثر کیونکر ہوا اور آخر اس اچانک عقیدت کی پیداۂش کی وجہ کیا ہے؟
از:۔
منیب اختر رضآ

غلطی اور احساس


غلطی ہو جانا غلط نہیں لیکن غلطی کا احساس نہ ہونا غلط فعل ہے.
انسان سے خطا ہونااسکی خطا نہیں لیکن خطا کو تسلیم نہ کرنا صریحاً انسان کی خطا ہے.
کسی بھی غلطی یا گناە کا اصل کفارە اس کے نتیجے میں ہونے والا احساس ندامت اور شرمندگی ہے کیونکہ غلطی کا احساس اور اس پر ہونے والی ندامت توبہ کی پہلی سیڑھی ہے.جن پر غلطی کرنے کے بعد ندامت اور شرمندگی کی کیفیت طاری ہوتی ہے وە لوگ الله کا قرب حاصل کر لیتے ہیں .لیکن جو اس احساس اور کیفیت سے محروم رہتے ہیں وە الله سے بھی دور ہوتے چلے جاتے ہیں.
غلطی کا احساس نہ ہونا مردە ضمیر ہونے کی نشانی ہے .
غلطی ہونے اور اس کا احساس ہونے کے مراحل تو آسان ہیں لیکن سب سے مشکل امر تو غلطی پر معافی مانگنے کا ہے.اور یہی امر اس غلطی کو غلط فہمی بننے سے روکنے کا موٴجب ہے.
غلطی کا احساس ہونا انسان کی اپنی ذات تک محدود ہےجبکہ معافی طلب کرنا اس احساس کےاظہار کا ذریعہ.
غلطی ہونے کے بعد ضمیر کے مطمۂن ہونے کا واحد حل معافی کی طلب ہے.معافی مانگنے سے ہی انسان کا ضمیر سکون حاصل کرتا ہے ورنہ ایک گمنام سی بے چینی دل کے کسی کونے میں گھر کر لیتی ہے.معافی مانگنے کا عمل وقتی طور پرمشکل اور تکلیف
دە ضرور ہےکیونکہ
اسکے لیے انا،عہدە یا معاشرتی مقام جیسی چیزوں کو شکست دینا ضروری ہے لیکن اسکے بدلے میں حاصل ہونے والا سکون اور
راحت داۂمی ہوتی ہے.
از:۔
منیب اختر رضآ

قوت الفاظ و انداز


الفاظ اور انداز میں ایک مخفی طاقت ہوتی ہے..یہ آسانی سے کسی کی شخصیت کواغوا کر سکتے ہیں. اگر الفاظ و انداز کسی شخص کے دل کو اپنی طاقت سےجکڑ لیں تو پوری عمر روح تاوان دیتی رہتی ہے اور یہ ایسا تاوان ہے جسے دیتے ہوۓ وە شخص دلی خوشی محسوس کرتا ہےاور کوئ بھی اس شخص کو تاوان کی اداۂیگی سے نیں روک سکتا!؂ 
تاوان کسی بھی شکل میں ہو سکتا ہے خواە وە کام ہوں یا شخصی خدمات کی صورت.اب یہ علیحدە بحث ہے کہ اس اغوا شدە دل سے کیا کام لیے جا سکتے ہیں.ان کاموں کی نوعیت چاہے مثبت ہو یا منفی مغوی (اغوا ہونے والا شخص ) ان سے لا تعلق ہو کرصرف کام(تاوان) کی انجام دہی میں مصروف رہتا ہے!
اس اغوا کی دلچسپ بات کہ مغوی(اغوا ہونے والا) کبھی اغوا کار کی نادیدە قید سے رہائ کی کوشش بھی نہیں کرتا حالانکہ وە تاوان بھی متعدد مرتبہ ادا کرچکا ہوتا ہے بلکہ مغوی اس قید میں طوالت کا متمنی رہتا ہے.؂
از:۔
منیب اختر رضآ

جذبات


الله پاک نے ہم انسانوں کو لا تعداد نعمتوں سے نوازا ہے کہ جن کا شمار تو شاید انسان کے بس کی بات ہی نہیں.انسان کہاں اپنی محدود عقل اور علم سے اس رب لعالمین کی لامحدودنوازشوں کو گن سکتا ہے؟
الله کی عطا کردە نعمتوں میں سے کچھ کو تو ہم دیکھ سکتے ہیں لیکن کچھ نعمتوں کا تعلق محسوسات سے ہے..اگر غور کیا جاۓ تو ہم میں موجود جذبات بھی نعمت ہیں.اگر جذبات نہ ہوتے تو ہم کیسے اپنی ذہنی اور جسمانی کیفیت دوسروں کو سمجھا سکتے؟
خوشی ،غم،غصہ،پیار محبت ،نفرت،تعریف،حسد،جوش وجذبہ ولولہ ،عقیدت اور اس طرح کی دوسری کیفیات جذبات کے زمرے میں آتی ہیں.دنیا میں کوئ بھی ایسا انسان نہیں کہ جو یہ دعویٰ کر سکے کہ وە ان کیفیات کا تجربہ نہیں رکھتا.بےجان اشیا ہی ان جذبات سے عاری ہوتی ہیں ورنہ انسان ہوں یا حیوان سب میں یہ جذبات ضرور موجود ہوتے ہیں.انسانوں میں حیوانوں کی نسبت نوعیت کے اعتبار سے زیادە گہرے پیچیدە اور وسیع جذبات ہوتے ہیں.
جذبات کا براەراست تعلق ہمارے دل کےاحساسات کیفیات اور موسمیات سے ہوتا ہے..ہماری زندگی میں ہونے والے حالات و واقعات ہمارے دل کی کیفیات پر اثر انداز ہوتے ہیں.جذبات کا تعلق ہماری محسوسات سے ہے.ہم کسی چیز کے بارے میں کیا محسوس کرتے ہیں اسکی عکاسی و ترجمانی ہمارے جذبات کرتےہیں.
اس بات میں شک کی گنجاۂش ہی نہیں کہ انسانوں میں جذبات ہوتےلیکن سب سے اہم معاملہ انکے اظہار کا ہے..جذبات اپنے اظہار کے بِنا بے معنی ہیں.انکے اظہار کے بغیر ہم اپنی دل کی کیفیت سمجھانے سے قاصر رہتے ہیں..میرےنزدیک جذبات کا اظہار اتنا ہی ناگزیر ہے کہ جتناان کا پیدا ہونا.
جذبات کے اظہار کےحوالے سے انسان بنیادی طور پر دو قسم کے ہوتے ہیں.
.پہلے وە جو جذبات کا برملا اظہار کرتے ہیں بلکہ شدت سے اظہار کرتے ہیں.وە چاہتے ہیں کہ وە اپنی اندرونی و دلی کیفیت پوری دنیا کو بتا دیں اور جذبات کے اظہار میں کسی قسم کی کنجوسی سے کام نہ لیں.
دوسری قسم میں وە انسان شامل ہیں جو جذبات تو رکھتے ہیں لیکن وە ان کا اظہار کر نہیں پاتے یا کرنا نہیں چاہتے.وە اپنے محسوسات کو اپنی ذات تک محدود رکھنا چاہتے ہیں اور اپنی اندرونی و دلی کیفیت کو سب سے پوشیدە رکھتےہیں اور اظہار انکے نزدیک گناە کے مترادف ہوتا ہے.
اب جذبات کے اظہار کی کچھ قدرتی طور پر راۂج علامات موجود ہیں.یعنی خوشی کے ساتھ مسکرانا ہنسنا،غم دکھ درد تکلیف کے ساتھ رونا کراہناآنسو ،غصے کےساتھ چیخناچلانا منسوب ہیں
ان مروجہ علامات کو انسان کی فطرت میں شامل کر دیا گیا ہے یعنی کسی انسان کسی جذبے کے حوالے سے سکھایا نہیں جاتا بلکہ خاص جذبے کے ساتھ لاشعوری طور پر ایک خاص ردعمل ظاہر ہوتا ہے.لیکن کئ مرتبہ شدت جذبات اس فطری ردعمل کے نظام کو بلکل الٹا کر رکھ دیتے ہیں مثلا کبھی ہم نہایت خوشیکےموقعوں پر شدت جذبات کے باعث اپنے آنسووٴں نہیں روک پاتےاور رونے لگ جاتے ہیں حالانکہ رونا اور آنسوتو غم کے اظہار کا ذریعہ ہیں.بالکل اسی طرح جب انسان شدت غم کی حالت میں اپنے حواس قاۂم نہیں رکھ پاتا تو ہنسنے لگتا ہےحالانکہ ہنسناتو خوشی اور راحت سے منسوب ہے.ایسا تب ہوتا ہے جب اس جذبے یا کیفیت کی مقدار انسان کی متوقع حد سے تجاوز کر جاۓ اور جذبے کا فطری رد عمل جذبے کے اظہار کے لیے ناکافی ثابت ہو تو ایسی صورت میں مقابل جذبے کی علامت یا ردعمل کو موجودە جذبے کےاظہار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے.
میں ذاتی طور پر جذبے کے بروقت اظہار کا حامی ہوں اور جذبات کے اظہار کے حوالے سے میانہ روی کا قاۂل بھی.کچھ لوگ صرف اس لیے اپنے جذبات یا ان کے اظہار کو پوشیدە رکھتے ہیں کہ کہیں زمانےمیں موجود انکے عہدے،رتبے یا
ساکھ کو نقصان نہ پہنچے یا انکے معزز ہونے پر نہ کوئ حرف آ
جاۓ حالانکہ پیار محبت خلوص حسن سلوک رواداری شکرگزاری پسندیدگی صلہ رحمی
اور اس
جیسے دیگر جذبات اور
انکا برملا اظہار انسان کی شخصیت کے مثبت پہلووٴں کو اجاگر کرنے کے ساتھ نیک نامی کا باعث ہوتا ہے اورالله اسکے حبیب صلی الله علیہ وسلم کی قربت حاصل کرنے کاذریعہ ہوتا ہے..
از:۔
منیب اختر رضآ