Wednesday 18 June 2014

کبھی وە زوال ہی میرا عروج تھا 
میرے عروج بھی اب تو زوال ہیں 
تیری وە قربتیں بھی عظیم تھیں
 تیری دوریاں بھی اب تو کمال ہیں 
کبھی غم بھی تو میرا رفیق تھا 
کہ یہ مسرتیں بھی اب توملال ہیں
 تھی وصال میں ہجر کی کیفیت
 تیرے ہجربھی اب تو وصال ہیں
 ہیں موجود مجھ میں جوخوبیاں 
تیری ذات ہی کےاب تو جمال ہیں 
از:۔ 
منیب اختر رضآ

خود غرضی

جب ہم کسی دوسرےکو خود غرض کہتے ہیں تو اصل میں دیکھاجائے تو ہم خود کو خودغرض کہہ رہے ہوتے ہیں کیونکہ جس کو ہم خودغرض کہتے ہیں اسی سے ہمیں کوئی نہ کوئی غرض ضرور ہوتا ہے اور چونکہ وە ہمارا غرض پورا نہیں کر پاتا اسی لیے وە ہمارےلیے خودغرض بن جاتالیکن اصل خود غرض تو ہم ہیں جو دوسرے سے غرض لگا کر اسےخودغرض کہتے پھرتے ہیں. 
از:۔ 
منیب اختر رضآ

دکھاوا

ہماری زندگی ان لوگوں کے لیے نہیں جو ہمارے سامنے مخلص ہونے کا دکھاوا کرتے ہیں یا ہم سے مخلوص ہونے کا دعوی کرتے ہیں.مخلص تو وە ہیں جو ہماری غیر موجودگی میں بھی ہمارے بارے میں اچھی رائے رکھتے ہوں یا ہماری خیر خواہی کے جذبات رکھتے ہوں. خلوص انسان کی باتوں سے نہیں اس کے اعمال سے ظاہر ہوتا ہے.مطلبی لوگ صرف باتیں کرتے ہیں عمل نہیں. 
از:۔ 
منیب اختر رضا

Sunday 15 June 2014

گونگے

گونگے وە نہیں ہوتے کہ جو کچھ بول نہیں سکتے یا کسی کو کچھ سنا نہیں سکتے.گونگے تو وە ہیں جو بول بھی سکتے ہیں،جن کے پاس زبان بھی ہے،جو اپنی باتیں دوسروں کو سنا بھی سکتے ہیں،جن کےپاس الفاظ بھی ہوتے ہیں لیکن انکی کوئی سنتا نہیں... وە گونگا نہیں جو سنا نہ سکے بلکہ اصل میں گونگا وە ہے کہ جسکی کوئی سننا ہی نہ چاہے!؂ 
 از:۔ 
منیب اختر رضآ

Saturday 14 June 2014

قابلیت

 ہر کندھا اس قابل نہیں ہوتا کہ جس پر سر رکھ کر جی بھر کے رویا جائے کیونکہ ہر کندھے میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وە اس روتے ہوئے شخص کے آنسوئوں کو جذب کرکے اسکو دلاسہ دے سکے.اور ہر روتا ہوا شخص اس قابل نہیں ہوتا کہ جسکے آنسوئوں کو جذب کرکے اسے دلاسہ دینے کو اپنا کندھا پیش کیا جائے
. از:۔
 منیب اختر رضآ

پستی و بلندی

دنیا میں ہر میدان میں ہر کام میں ہر عمل میں اگر ہمیں کامیابی حاصل کرنی ہو یا ترقی کرنی ہو تو ہمیں آگے کی جانب ،اوپر کی جانب سفر کرنا ہوتا ہے.خود کو اوپر اٹھانے کے لیے اوپر سے اوپر چڑھتے جانا ہوتا ہے.کوئی اگر خود کو گرا لے یا گھٹنوں کے بل کھڑے ہونے پر آپ ترقی نہیں کر سکتے.یعنی دنیا میں کسی بھی حوالے سے پست ہونا آپکو بلندی کی طرف نہیں لے کر جاسکتا.یہی دنیا کا نظام ہے اور یہی اسلوب. 
لیکن ایک جگہ ایسی ہے کہ جہاں یہ نظام دنیا سے بالکل برعکس ہے.جہاں پست ہونا ہمیں بلندیوں کی طرف لے کرجاتا ہے.جس بارگاە میں خود کو گرا لینے سےآپ اوپر کی جانب اٹھتے چلےجاتے ہیں.جتنا جھکتے ہیں اتنا عروج حاصل کرتے جاتے ہیں.جتنا زمین پر پیشانی جماتے ہیں اتنا ہیں آسمان اتنا ہی قریب ہوتا جاتا ہے.جہاں خود کو فنا کرکے امر ہوتے چلے جاتے ہیں.جتنے عاجز ہوتے جاتے ہیں اتنے ہی اونچے مقام و مرتبے کو پاتے ہیں.جہاں اپنی ذات کو مٹا کر زندە وجاوید ہو جاتے ہیں. یہ نظام صرف الله کی بارگاە کا نظام ہے.جہاں آنسو گراتے جائو اور فلاح پاتے جائو .خود کو زمین پر گرائو یا اپنے آنسو ٹپکاتے جائو اور مرتبے کی سیڑھیاں چڑھتے جائو.خود کو ادنی بناتے جائو اور اعلی درجوں کو حاصل کرو.انا کی پستی میں اتر کر عطا کی بلندیوں کو چھو لو.الله پاک کے آگے جھکنا ہی اصل میں انسان کو اس قابل بناتا ہے کہ وە زندگی کےہر میدان میں کامیابی سے سیدھا اور باعزت طور پر کھڑا ہو سکے. 
از:۔
 منیب اختر رضآ

Sunday 8 June 2014

آئیڈئیل!

کچھ لوگوں سے بات کرنے میں لطف آتا ہے اور کچھ لوگوں کی بات کرنے سے لطف آتا ہے لیکن ایسی شخصیت کہ جس سے گفتگو کرنا بھی مزە دے اور جسکی گفتگو کرنا بھی آپکو لطف دے.اصل میں وہی شخصیت آپکے لیے آئیڈیل ہوتی ہے.وہی آپکے لیے مثالی ہے اور وہی آپکے لیے کامل!؂ 
 از:۔
 منیب اختر رضآ

Saturday 7 June 2014

ںعت رسول مقبول ﷺ

جا زندگی مدینے سے جھونکے ہوا کے لا 
شاید حضورص ہم سے خفا ہیں منا کے لا
کچھ ہم بھی اپنا چہرە باطن سنوار لیں 
 ابوبکرؓ سے کچھ آئینے عشق و وفا کے لا
 دنیا بہت ہی تنگ مسلماں پہ ہوگئی 
فاروقؓ کے زمانے کا نقشہ اٹھا کے لا 
محروم کردیا ہمیں جس سے نگاە نے 
عثمانؓ سے وە زاویے شرم و حیا کے لا 
مغرب میں مارا مارا نہ پھر اے تلاش علم 
دروازە علیؓ سے یہ خیرات جا کے لا 
باطل سے دب رہی ہے امت رسول کی 
منظر ذرا حسینؓ سے پھر کربلا کے لا
 کلام:۔ مظفر وارثی

Sunday 1 June 2014

موسم کا ساتھ

اکثر انسانوں سے زیادە موسم ہمارا خوب ساتھ دیتا ہے.یہ ہمیں اکیلا ہونے نہیں دیتا.جب دل کا موسم شاد ہو تو یہ برستا ہے اور جم کربرستا ہے ہماری خوشی میں ہمارے ساتھ خوش ہوتا ہے.جیسے ہم خوشی میں اپنا سب کچھ دوسروں پر نچھاور کرنے کو تیار ہوتے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ جیسے ہم خوش ہیں ویسے ہی ہم دوسروں پر خوشیاں نچھاور کریں لیکن شاید ہماری خوشی میں ہمارے اردگرد موجود انسانوں کی بجائے موسم خوش ہوتا ہے اتنا برستا ہے کہ ہر چیز کو شاداب کر دیتا ہے.ہماری خوشی میں اس حد تک خوش ہوتا ہے کہ بادل اپنی آخری بوند تک برسانے کو تیار رہتے ہیں کہ کہیں ہماری خوشی کے استقبال میں کوئی کمی نہ رە جائے.کہیں اس خوشی کے اظہار میں کوئی دیر نہ ہوجائے.کہیں کوئی محروم نہ رە جائے.بادلوں کے پاس بوندوں کے علاوە ہوتا ہی کیا ہے؟انکا کل اثاثہ بوندیں ہی تو ہیں لیکن بادل اپنی آخری بوند تک برسا کر اپنے وجود کو ختم کر لیتے ہیں لیکن اپنے اظہار میں کوئی کنجوسی نہیں کرتے.ان بادلوں کا یہ خلوص آپکو ایسا احساس دے جاتا ہے کہ جسے آپ کبھی فراموش نہیں کر پاتے.کسی انسان سے کیا گلہ کہ وە ہماری خوشی پر نہ تو اظہار کرتا ہے نہ اس میں شریک ہونے کی کوشش کرتا ہےبلکہ اکثر ہمارے خوش ہونے پر افسردە ہو جاتا ہے. 
غم میں بھی معاملہ کچھ زیادە مختلف نہیں ہوتا.یہ موسم یہ بارش یہ بادل یہ بوندیں تب بھی اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہیں.حالت غم میں جب ہماری آنکھیں برستی ہیں تو موسم کا حال بھی کچھ زیادە مختلف نہیں ہوتا.یہاں آنکھوں سے آنسو برستے ہیں وہاں بادل آسمان سے ننھی بوندیں بھیجتے ہیں ہمیں تسلی دینے کو ہمیں حوصلہ دینے کو اس غم کے اظہار میں شرکت کے لیے.یہ ننھی بوندیں ہم سے کہتی ہیں تم اکیلے نہیں ہم بھی تمہارے ساتھ شریک ہیں.پھر موسم کو بھی ہماری حالت کی آگاہی ہو جاتی ہے.پھر وە ہماری حالت دیکھ کر ردعمل کا اظہار کرتا ہے.جب کوئی ایک آدھ آنسو ہمارے رخسار پر بہہ نکلتا ہے تو بوندا بندی شروع ہو جاتی ہے.جب آنسو جوڑے بنا کر نکلتے ہیں یا انکی تعداد میں اضافہ ہوتا ہےتو بوندوں کی تعداد بھی بڑھ جاتی ہے اور انکے برسنے کی رفتار بڑھ جاتی ہے.اب جب شدت میں اضافے کے باعث زاروقطار والا مرحلہ آن پہنچتا ہے جب آنسوئوں کے بہنے کی رفتار اور مقدارکا اندازە نہی رہتا تو یہ بادل بھی آپے سے باہر ہو جاتے ہیں اور اپنی پوری استطاعت اور طاقت سے برستے ہیں اور اک پل کے لیے بھی ہمیں تنہائی کا احساس ہونے نہیں دیتے.قصہ صرف یہیں تمام نہیں ہوتا وقتا فوقتا بادلوں کی یہ گرج ہماری سسکیوں اور آہوں کو اپنے دامن میں چھپا کر ہمیں دلاسہ دیتی ہے.غم کی یہ ساری کیفیت موسم پر بھی طاری رہتی ہےایک پر خلوص اور احساس مند دوست کی طرح.یہ ننھی بوندیں شاید بڑے بڑے انسانوں سے بھی بڑی ہوجاتی ہیں کیونکہ خوشیاں اور غم بانٹنا بڑے اوراعلی ظرفی کی نشانی ہےاور اکثر یہ چھوٹی بوندیں بڑائی اور اعلی ظرفی دونوں تک پہنچ جاتی ہیں جہاں شاید انسان نہیں پہنچ پاتے. 
ہم انسان تویہ سمجھتے ہیں کہ جب تک ہم حوش ہیں سارا جہان خوش ہے.وە خوشی خوشی نہیں جو آپکو تنہائی میں ملےاور آپکو تنہا کردے یہ تو صرف خودغرضی ہے.جوخوشی آپکو تنہا کر دے تو وە غم کے سوا کچھ نہیں کیونکہ جب غم آتا ہے تو وە تنہا کر کے ہی چھوڑتا ہے. 
از :۔                                                                                                                     
منیب اختر رضآ                                                                                                                         

عروج و زوال

شاید کہ یہ عروج تھا 
کہ اب سفر زوال ہے
 :)
منیب اختر رضآ