Wednesday 11 December 2013

لا شعور اور شعور!



           

اللہ نے انسان پر بے شمار احسانات کیے ہیں اور جسے بھی دیا ہے بغیر کسی حساب کے دیا ۔انسان کو عقل دی شعور دیا اور علم جیسےانعامات کی بارش کر دی۔ان سب چیزوں کے ساتھ ساتھ انسان کو لا شعور بھی عطا کیا۔لا شعور ہے کیا؟لا شعور وہ ہے جس کا شعور کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہو۔لا شعور وہ ہے کہ جس تک انسان کا شعور اور عقل پہنچنے سے قاصر ہے۔لاشعور بھی اسی دماغ کا حصہ ہے کہ جس کے ساتھ شعور اور عقل کا تعلق ہے۔یہ بھی اللہ پاک کی اس وسیع و بے پناہ قدرت کا عظیم مظہر ہے کہ انکا تعلق ایک چیز سے ہونے کے باوجود کام اور نوعیت کے اعتبار سے یہ ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں اور ایک ساتھ رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے پر اثر انداز نہیں ہوتے۔
لاشعور بنیادی طور پر وہ رد عمل ہے کہ جس پر نہ تو انسان کا قابو ہے اور نہ ہی عمل دخل۔مثلا سوئی کی چبھن محسوس ہونے پر ہاتھ کو فورا پیچھے کرنا ایک لا شعوری اور غیر ارادی ردعمل ہے جس کا شعور اور عقل سے کوئی واسطہ نہیں۔لاشعور انسانی دماغ کا وہ حصہ ہے کہ جسکو اللہ تعالی کی طرف سے انسان کی پیدائش کے روز سے ہی ایک خاص ترتیب میں مرتب یا "پری پروگرام" کر دیا ہے اور یہ انسان کی وفات تک تقریبا بنیادی طور پر اسی حالت میں موجود رہتا ہے۔
ہم اگر غور کریں یا ہم نے کبھی دیکھا ہو کہ جب عورتیں روتی ہیں یا افسردہ ہوتی ہیں تو وہ اکثر اپنے ہونٹوں پر یا اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیتی ہیں۔اسی طرح مرد جب دکھی ہوتے ہیں یا روتے ہیں تو وہ اپنے ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھ دیتے ہیں۔یہ ایک لاشعوری یا غیر ارادی ردعمل ہوتا ہے جس میں عقل یا شعور سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔اب یہ کوئی اتنی اہم بات نہیں ہے۔لیکن اگر سوچا جائے تو یہ ہمارے لاشعور کی سچائی اور معصومیت ہے۔ہمارا لاشعور ہماری برائیوں کے ذرائع یا ماخذ کو جانتا ہے اور جذبات کے اظہار کے دوران ہاتھوں سے چھپا دیتا ہے۔اب یہ بھی سچ ہے کہ عورتوں کی زبان اور مردوں کی آنکھیں برائی یا فساد پیدا کرنے کے ذرائع ہیں اور ہمارا لاشعور اس بات کو بخوبی جانتا ہے اور اظہار جذبات کے دوران ردعمل کے طور پر ان ذرائع کو ہاتھوں سے ڈھک دیتا ہے۔۔
شاید ہم خود بھی اس تجربے سے گزر چکے ہیں اور یہ غیر ارادی ردعمل ہمارے ساتھ بھی ہوچکا ہو۔اس عمل کو روکنے میں ہم  بے بس ہوتے ہیں ہم چاہتے ہوئے بھی اپنے ہاتھوں کو نہیں روک سکتے۔۔ہمارا لاشعور ہمارے برائی کے ذرائع کا ادراک رکھتا ہے اس لیے یہ عمل گیر ارادی طور پر ظاہر ہوتا ہے۔چونکہ ہمارا لاشعور ملاوٹ سے پاک ہوتا ہے اسی لیے وہ ہمیشہ کھرا اور سچا ردعمل دیتا ہے۔
میرے نزدیک عورتوں کی زبان اور مرد کی نظر برائی کے آغاز کے ذرائع ہیں۔اگر عورت اپنی زبان کی حفاظت کرے حفاظت سے مراد حفاظتی حصار نہیں بلکہ اسکے استعمال میں اعتدال اور اسکو قابو کرنے کا نام ہے۔کیونکہ جب ایک عورت کی زبان چلتی ہے تو نہ وہ غیبت سے باز آتی ہے نہ وہ چغلی سے باز آتی ہے اور نہ وہ حسد کے اظہار کو روک پاتی اور یہ زبان جو اللہ کی دی ہوئی نعمت ہے وہ برائی کا ماخذ بن جاتی ہے۔
بالکل اسی طرح مرد کی نظر ہے اسکی حفاظت بھی اشد ضروری ہے۔اب یہاں حفاظت سے مراد آنکھوں کا بند کر لینا نہیں بلکہ ان میں حیا پیدا کرنا ہے ان کو جھکا لینا مقصود ہے۔کیونکہ اگر مرد کی نظر میں حیاء نہ ہو پاکیزگی نہ ہو تو اسکی اور حیوان کی نظر میں کوئی فرق نہیں۔مرد کی نظر پاک نہ ہو تو وہ پاک چیزوں کو بھی ناپاک کر دیتی ہے۔وہ جائز کو بھی ناجائز کے طور پر دیکھنا شروع کر دیتا ہے۔مرد سنی سنائی غلط فہمی پر اتنی جلدی یقین نہیں کرتا جتنی جلد وہ آنکھوں دیکھے وہم ،غلط فہمی یا نظر کے فریب پر یقین کر لیتا ہے۔انہی آنکھوں سے وہ دوسروں کو برائی کی طرف راغب کرتا ہے۔پرد ہر چیز کو اپنی نظر کی کسوٹی پر تولتا ہے۔اس طرح وہ اللہ کی دی ہوئی نعمت کو برائی کا ابتدائی ذریعہ بنا دیتا ہے۔
لاشعور میں ایک معصومیت ہوتی ہے فطری معصومیت۔ایسی معصومیت جو خدا تعالی نے ہماری پیدائش کے ساتھ ہی عطا کی ۔اللہ کی طرف سے حاصل شدہ خالص معصومیت ،خلوص اور سچائی۔
ہم اکثر ایک محاورہ استعمال کرتے ہیں۔۔۔"بچے من کے سچے"۔۔بچے کیوں من کے سچے ہوتے ہیں۔ان کی ہر ادا میں معصومیت ہوتی ہے پیار ہوتا ہے ملنساری ہوتی ہے خلوص ہوتا ہے عاجزی ہوتی ہے۔انکا ہر عمل تمام اقسام کی شعوری ملاوٹوں سے پاک ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ ہر قسم کی مکاری،دھوکے،فریب،دکھاوا،حسد،انا اور چالاکی کا شعور نہیں رکھتے۔انکا شعور ابھی ابتدائی مراحل میں ہوتا ہے اور وہ ان شعوری برائیوں سے آگاہ نہیں ہوتے۔جوں جوں وہ بڑے ہوتے ہیں انکی عمر میں اضافہ ہوتا ہے انکے تجربات بڑھتے ہیں اور انکا شعور پختہ ہوتا ہے تو یہ شعوری برائیاں ترقی کرتی ہیں۔
لاشعور پر انسان کا مکمل قابو تو نہیں ہوتا لیکن انسان وقت کے ساتھ ساتھ اسکی ہیئت تبدیل کرنے اور اس میں اضافہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ہم جو کام روزانہ کی بنیاد پر کرتے ہیں یعنی پیشہ وارانہ کام۔ان کاموں کا طویل عرصے تک تسلسل بھی انہیں ہمارے لاشعور میں شامل کر دیتا ہے۔اب ایک عام مثال ہے کی جب ہم کلیدی تختی (کی بورڈ) کے ذریعے کچھ لکھنے کے لیے اس پر موجود گھنڈی (بٹن) دباتے ہیں تو ہم بغیر دیکھے ہوئے بھی مطلوبہ گھنڈی (بٹن) کو دباتے ہیں۔شاز و نادر ہی کوئی غلطی کرنا ہے کیونکہ اس کام ے تسلسل اور مشق مسلسل اس عمل کو ہمارے لاشعور میں شامل کر دیتی ہے اور عدم توجہ کے باوجود بھی اس کام سے مطلوبہ نتائج حاصل کر لیتے ہیں۔
اگر ہم کوئی برائی بھی متواتر اور مسلسل بنیادوں پر کرتے ہیں توہ بھی کسی نہ کسی صورت ہمارے لاشعور میں شامل ہو جاتی ہے۔ممکن ہے کہ اسکی شمولیت قلیل سطح پر ہی کیوں نہ ہویہ ہمارے لاشعور پر ضرور اثر انداز ہوتی ہے۔لیکن ہمارا فطری لاشعور ہمیشہ اس نووارد شمولیت پر حاوی رہتا ہے۔
لاشعور کیوں اہم ہے؟اسکا جواب کچھ یوں ہے کہ لاشعور ہی ہے جو کسبی بھی چیز کے بارے میں تیز ترین ردعمل کا مظاہرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔مثلا اگر کوئی ہمارے پیشے یا کاروبار سے متعلقا سوال کرتا ہے تو ہم اسکا جواب انتہائی تیزی سے دیتے ہیں اور بسا اوقات سوال کے مکمل ہونے سے پہلے ہی ہمارا جواب حاضر ہوتا ہے۔بات صرف پیشہ وارانہ امور تک محدود نہیں بلکہ اچھے برے اور سچ جھوٹ کے بارے میں پہلا فیصلہ بھی ہمارا لاشعور ہی کرتا ہے۔اللہ تعالی نے ان چیزوں موازنے کی فطری صلاحیت لاشعور کو پہلے روز سے ہی عطا کر دی ہے لیکن ہماری چالاکیوں اور مکاریوں اور منافقت نے اسکی اللہ کی طرف سے عطا کردہ صلاحیتوں کو دھندلا دیا ہے۔
لاشعور کے بارے میں تو ہم کافی بحث کر چکے۔اب کچھ شعور کا بھی مختصر سا ذکر ضروری ہے۔
شعور کیا ہے اور یہ کیا کام کرتا ہے؟یہ کچھ شعور کے حوالے سے بنیادی سوالات ہیں۔شعور نام ہے آگہی کا ،معلومات کا،نقطہءنظر کا،سوگ کے انداز کا اور کسی حد تک ہمارے احساس کا۔
شعور کی ابتدا ہوتی ہے ہمارے بچپن سے جب ہم ہوش سنبھالتے ہیں تب ہمارا شعور ابتدائی مراحل میں ہوتا ہے۔جب ہم چیزوں کے بارے میں آگاہی حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔اپنا نقطہ نظر تخلیق کرتے ہیں۔جب ہم اپنی سوچ کا زاویہ متعین کر رہے ہوتے ہیں۔جب ہم اشیاء لوگوں اور حالات کے بارے میں اپنی رائے قائم کر رہے ہوتے ہیں۔شعور وقت کے ساتھ ساتھ ترقی بھی کرتا ہے اور اس میں تبدیلی بھی آتی رہتی ہے۔ہمارے شعور کی تخلیق اور نشوونما میں بنیادی کردار ماحول اور ہماری سوچ پر ہوتا ہے۔ہم جو اپنے ماحول سے سیکھتے ہیں اور اس کو جس اندازنظر یا "اینگل" سے دیکھتے ہیں وہ ہمارے شعور کی تخلیق کرتا ہے۔انسان کا بنیادی شعور اسکے والدین،اساتذہ،دوستوں،عزیزواقارب اور ان لوگوں سے حاصل ہوتا کہ جن سے اسکی بچپن میں کسی نہ کسی حوالے سے ملاقات ہوتی ہے۔انسان جس ماحول میں اپنا بچپن گزارتا ہے وہ بھی اسکے بنیادی شعور کی سمت متعین کرتا ہے۔ایک نہایت دلچسپ بات کہ یہاں ایک شعور دوسرے شعور پر اثر انداز ہوتاہے۔ایک انسان کا شعور اسکے قریب رہنے والے دوسرے انسان کے شعور کو کسی نہ کسی حوالے سے ضرور متاثر کرتا ہے۔
ایک بات تو ہم جانتے ہیں کہ ہمارا لشعور تقریبا ویسا ہی رہتا ہے جیسا کہ اللہ نے ہمیں ہماری پیدائش کے وقت عطا کیا ہوتا ہے اور یہ ہمارے قابو میں نہیں ہوتا۔لیکن شعور وہ ہے کہ جس پر ہم پورا اختیار رکھتے ہیں۔ہم جیسا چاہیں ویسا شعور حاصل کر سکتے ہیں اچھا یا برا۔ہم شعور کے حصول کے معاملے میں آزاد ہیں۔یہ ہماری صوابدید ہے ہمارا اختیار ہے کہ ہم چاہیں تو بری صحبت سے اچھی باتیں سیکھیں یا اپنائیں یا اچھی محفل میں رہتے ہوئے بھی منفی سوچوں کو پروان چڑھائیں۔اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ کس چیز کے حصول کا متلاشی ہے۔اگر ہم کوئلے کی کان میں ہیرے ڈھونڈنے کی نیت سے داخل ہوں تو ہمیں ہیرے ہی حاصل ہوں گے چاہے اس کوشش میں ہم خود کالے ہو جائیں۔یہ ہماری اپنی نیت ہے اپنا شعور ہے اور اپنا اختیار۔
شعور بذات خود برا نہیں بلکہ اسکو حاصل کرنے کی سعی کرنے والا یا اس کا تخلیق کرنے والا انسان قصور وار ہوتا ہے۔کیونکہ انسان خود ہی اس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اسکو کس سمت میں لے کر جانا چاہتا ہے۔شعور کے حوالے سے کسی بھی قسم کی ناکامی کا ذمہ دار معاشرہ یا حلقہ احباب نہیں بلکہ وہ فرد خود ہوتا ہے۔
ہم اپنےدشمنوں اور ناپسندیدہ لوگوں کے لیے ان میں شعور پیدا ہونے کے لیے اللہ سے دعائیں مانگتے ہیں اس ات سے بے خبر کہ ہمارا شعور اس قابل بھی ہے کہ اسے شعور کہا جا سکے۔۔ شعور ہمیشہ منزل اور اسکی طرف جانے والے راستوں میں سے درست راستے کا تعین کرتا ہے۔لیکن اس عمل میں شعور کے ساتھ ساتھ نیت اور منزل کی نوعیت کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔
جہاں شعور کی حدود ختم ہوتی ہے وہاں سے لاشعور کی سلطنت کا آغاز ہوتا ہے۔کئی مرتبہ ہمارے شعور کے کئے گئے فیصلے ناکام ہوتے ہیں جبکہ لاشعور اسکے مقابلے میں درست فیصلے کرتا ہے۔۔
لا شعور انسان کو عطا کردہ اللہ کی بیش بہا نعمت ہے۔کیونکہ لاشعور میں انسان کی اصلی معصومیت پنہاں ہے۔وہ معصومیت جس کو اللہ تعالی بھی پسند فرماتا ہے۔کیونکہ لاشعور میں کوئی مکاری نہیں کوئی جھوٹ نہیں۔اس میں خلوص ہے پیار ہے انسانیت ہے جزبہ ہے احساس ہے اور سب سے بڑھ کر اسکی ایک خوبی ہے۔توکل کی خوبی۔اللہ کی ذات پر توکل کی خوبی۔
جب انسان کسی مصیبت،دکھ یا تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ اپنے شعور کے مطابق اس پریشانی کے سدباب کے لیے سوچتا ہے فکر کرتا ہے۔لیکن لاشعور کے پاس ایک آسان حل ہر وقت موجود ہوتا ہے۔وہ اس پریشانی کو اللہ پر چھوڑ دیتا ہے۔
ہمارا لاشعور ایک ایسا کام کرتا ہے جسکی وجہ سے وہ شعور سے زیادہ افضل ہوجاتا ہے۔ہم تمام عمر شعور و عقل کے حصول میں صرف کر دیتے ہیں۔اعلی تعلیم حاصل کرتے ہیں اچھی محفلوں میں بیٹھتے ہیں،مشاہدے کرتے ہیں غور و فکر کرتے ہیں اعلی خیالات کی تخلیق کرتے ہیں۔اللہ سے عقل و شعور میں اضافے کی دعائیں کرتے ہیں لیکن پھر بھی ان تمام باتوں کوششوں جدوجہد کے باوجود ہمارا شعور اس مقام پر نہیں پہنچ پاتا جہاں ہمارا لا شعور ہوتا ہے۔
اسکی پہلی وجہ اسکی اللہ کی جانب سے تخلیق اور اسکا مقرر کردہ معیار ہے اور دوسری اہم وجہ اپنے خالق کی ذات پر اعتماد،یقین،بھروسہ،اعتبار اور اس پر پختہ ایمان ہے ۔اسکی چھوٹی سی مثال ہے کہ جب ہم پر اچانک کوئی مصیبت،پریشانی یا کوئی آفت آتی ہے تو ہماری زبانوں سے یہ کلمات جاری ہوتے ہیں۔"یا اللہ خیر"   "یا اللہ مدد"  "الہی کرم فرما"۔۔۔۔یہ کچھ ایسے کلمات ہیں جو ہمارے لاشعورسے ادا ہوتے ہیں۔ہمارے شعور سے بھی پہلے۔ہمارے شعور کے سوچنے سے بھی پہلے ۔شعور کے ردعمل ظاہر کرنے سے بھی پہلے ہمارا لاشعور اس ذات کو یاد کرتا ہے یا مدد کی دعا ہے جو رب العالمین ہے جو مشکل کشا ہے جو مسبب الاسباب ہے۔جس ذات کے لیے کوئی کام بھی مشکل نہیں۔ہمارا لاشعور ہمیشہ ہمارے شعور کو اور ہمیں اللہ سے جوڑے رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔
مصیبت میں سب سے پہلے ہمارا لشعور ہی اس مصیبت کا حل تجویز کر دیتا ہے اور وہ ہم سے اور ہمارے شعور سے مخاطب ہو کر کہتا ہے۔۔۔"اے نادان انسان پناہ مانگنی ہے تو اپنے رب سے مانگ،مسئلے کا حل مانگنا ہے تو اپنے رب سے مانگ،مدد مانگنی ہے اپنے رب سے مانگ،کسی کا قرب مانگنا ہے تو اپنے رب کا قرب مانگ۔کیوں تو اپنے محدود شعور کے پیچھے بھاگتا پھرتا ہے جسے اپنا ادراک خود نہیں ہے۔"
لیکن ہم تمام "عقلمند" ،"تعلیم یافتہ"،"عظیم" اور "صاحب غوروفکر" انسان اپنے لاشعور کے تجویز کردہ آسان ترین حل کو چھوڑ کر اپنے "محدود " عقل و شعور سے اس مصیبت کا حل دریافت کرنےمیں مصروف ہو جاتے ہیں۔یہی ہماری سب سے بڑی ناکامی ہے۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ایسا شعور دے جسکی ابتدا بھی اسی کی ذات ہو اور انتہا اسی کا قرب و عشق۔۔۔آمین۔!


                                                    از:-
                                             منیب اختر رضآ