Sunday 21 September 2014

میرے لفظ تو تھےبے مطلب سے
 تھے بے ڈھنگے سے بے معنی سے
 تیری ذات سے جب منسوب کیے
 ہیں اب افسانے سے کہانی سے
 کبھی فقروں میں تعطل رہتا تھا
 اب بنتےہیں یہ شعر روانی سے
 میرے اشک بھی اب تو موتی ہیں
 لگتے تھے مجھے جو پانی سے
 میرے لفظ جو نہ سمجھے انکو کیا 
واسطہ میری چپ کےمعنی سے؟
 نہ ہوکر بھی میرے ساتھ ہیں وە
 جڑے ہیں اک تعلق روحانی سے 
از:۔ منیب اختر رضآ
یہ تنہائی بھی تومیری ہے میں اس بھی ملنا چاہتا ہوں
 فقط یہی فقط میری ہے میں اس سے ہی ملنا چاہتا ہوں
محفلیں روز سجتی ہیں یہ مجھ سے روزملتی تو ہیں لیکن
 میری ہو کر بھی یہ نہیں میری نہی ان سےملنا چاہتا ہوں
 یہ جو زندە دل کہلانے والے محفلوں میں تھرکتےرہتے ہیں
 ان کی زندە دل تنہائیوں سے تنہائی میں ملنا چاہتا ہوں
 شور غل کی محفلوں میں جو بہت خاموش رہتےہیں
 ان خاموش لوگوں میں چھپے شورو غل سے ملنا چاہتا ہوں 
بھری محفل میں بھی رہتا ہوں جانے کیوں میں تنہا سا؟ 
شاید اپنےاندر بپا محفل سے محفل میں ملنا چاہتا ہوں 
مل کےبھی نہیں مل پاتے مجھے جو لوگ محفل میں 
لمحہ بھر کو تنہائی میں ان پر اسرار لوگوں سے ملنا چاہتا ہوں 
چاە کر بھی سنا نہیں سکتے اپنی مجبوریوں کے سب قصے 
انہی لوگوں کے سب قصے سننے کو ان سے ملنا چاہتا ہوں 
میری تنہائی بھی تنہائی میں تنہا رە کر بہت شور کرتی ہے
 دلاسہ دینے کو اپنی تنہائی کو تنہائی میں ملنا چاہتا ہوں 
میری تنہائی ہی ہے جو مجھکو تنہا ہونے نہیں دیتی
 ادا کرنے کو تنہائی کا شکریہ میں اس سے ملنا چاہتا ہوں 
خود غرضوں کے جیسے ہرگز نہیں کرتی مجھے نظر انداز
 مل ہی جاتی ہے مجھے ہر پل مجھے جب بھی ملنا چاہتا ہوں 
ہوتی ہیں سب مجبوریاں جنہیں میری ہی ذات کی حد تک 
بتا دوان موقع پرستوں کو نہیں اب میں ان سےملنا چاہتا ہوں 
از:۔ منیب اختر رضآ