Wednesday 5 March 2014

تیس سیکنڈز!

کچھ کاموں کی انجام دہی کو صرف چند لمحے درکار ہوتے ہیں.اپنوں کو غیر ہونے میں،دوست کو اجنبی ہونے میں،تعلق کے لا تعلق ہونے میں،دعوے کو دکھاوا ہونے میں،انمول کو بے قیمت ہونے میں،خلوص کو بدنیت ہونے میں،مستقل کے عارضی ہونے میں،نرم سے سخت ہونے میں،پاس سےدور ہونے میں،قادر سے مجبور ہونے میں،طاقتور سے عاجز ہونے میں،ہم کلام سے بےکلام ہونے میں.صرف یہ فہرست یہیں تک محدود نہیں بلکہ اور بہت سے کاموں کے ہونے میں وقت کہاں لگتا ہے.انسان کے بدل جانے کے لیے صدیاں درکار نہیں ہوتیں صرف چند لمحے ہی کافی ہوتے ہے.ہم جب کسی اپنے دوست یا قریبی کو اجنبی یا دور کرنا چاہیں اسکو پرایا کرنا چاہیں تو بھی کچھ ہی پل چاہیے.خاموشی کبھی بھی تعلق یا رشتے کے خاتمے کی وجہ نہیں بنتی.خاموشی سےدوستی ختم نہیں ہو جایا کرتی.خاموشی تو بس وقتی طور پر رشتوں میں معمولی و عارضی سا خلا اور ججھک پیدا ہوتی ہے جسے بے تکلفی سے اور خلوص سے کچھ ہی لمحوں میں ختم کیا جا سکتا ہے.لیکن لفظوں اور رویوں کے بدلنے سے جو خلا پیدا ہوتا اس کو ختم کرنا نہایت مشکل ہوتا ہے. صرف تیس سیکنڈ کے اندر اندر ہی ہم برسوں کی دوستی کا خاتمہ کر ڈالتے ہیں.صرف تیس سیکنڈ لگتے ہیں کسی پرانےتعلق سے لاتعلق ہوتے.سالوں کی وابستگی بیگانگی میں بدلتے ہیں صرف تیس سیکنڈ.وە تیس سیکنڈ کے جس کے دوران سلام دعا بھی ہوتی ہے حال احوال کےسوالات بھی ہوتے ہیں اور نیک تمنائوں کا تبادلہ بھی ہوتا ہے لیکن یہی تیس سیکنڈ ہمارے تعلقات،رشتوں،وابستگیوں اوردوستیوں کے مستقبل کا تعین کرتے ہیں. بظاہر تو ان تیس سیکنڈز کے درمیان رسمی گفتگو رہتی ہے کہ جن سے رشتےمظبوط ہوتےہیں لیکن ان تیس سیکنڈز میں ہونے والی گفتگو کے لیے استعمال ہونے والا لہجہ،اندازگفتگو،طرز و لےاور وە بےنیازی ہی کا فرق ہوتا ہے. دسمبر کی راتوں کی طرح سرد لہجے،تلوار کی طرح دل چیرتا ہوا انداز گفتگو،بے لچک طرز اور مدھم ہوتی لے،بےنیازی و بےرخی سے دوسری جانب دیکھتی آنکھیں،بےدلی سے سلام کے لیے سست رفتاری سے بڑھتا ہاتھ اور سلام لینےکے بعد برق رفتاری سے پیچھے ہٹتا ہاتھ،چہرے پر پھیلی بےزاری و بےتوجہی،غصےسے سکڑھتی ناک ایک خلوص سے عاری مصنوعی و بناوٹی سی مسکراہٹ،کانٹوں کی طرح چبھتے لفظ،رخ بدلنے کی جلدی اور واپس لوٹ جانے و نظروں سے اوجھل ہوجانے کی تیزی یہ سب کچھ ہوتا ہے صرف تیس سیکنڈ میں.کچھ یوں ہوتے ہیں اپنے پرائے صرف تیس سیکنڈ میں.مظبوط ترین رشتوں کا خاتمہ کچھ ایسے کرتے ہیں یہ تیس سیکنڈ.گلے شکوے کرنے کی بھی مہلت نہیں دیتے یہ تیس سیکنڈ.کسی کو پیچھے سے آواز دے کر واپس بلانے کا بھی موقع نہیں دیتے اور نہ ہی کسی سے معافی مانگنے کی اجازت دیتے ہیں یہ تیس سیکنڈ.سب کچھ تبدیل کر دیتے ہیں یہ تیس سیکنڈ. ہمیں خود سے دور کر دینے والے کس کمال خوبصورتی و ہنر سے یہ تمام کام سرانجام دیتے ہیں اور ہمیں قصوروار ٹھہرانے میں کامیاب رہتے ہیں اور وە آسانی سے ہر حوالے سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں.اے کاش کہ کبھی کسی کی زندگی میں یہ تیس سیکنڈ نہ آئیں کیونکہ وە شخص یہ کہتاہے کہ "میں نے کسی پر احسان نہیں کیا" اور صاف بچ نکلتا ہے اور ہمیں ایک عجیب کشمکش میں مبتلا کر دیتا ہے اور ہمیں ہماری ہی نظروں میں مجرم بنا کر اپنی راە لیتا ہے. از:۔ منیب اختر رضآ

جس طرف دیکھنا جدھر جانا
 مسکرا کر اداس کر جانا
 مشغلہ اپنی چاند راتوں کا
 دیکھنا خواب اور ڈر جانا

خواہش عظیم


پیغام صبا لائی ہے گلزار نبی سے
 آیا ہے بلاوا مجھے دربار نبی سے
 انسان کی زندگی میں اسکی لاتعداد خواہشیں،چاہتیں ہوتی ہیں جن کی تکمیل کے لیے وە تمام عمر جدوجہد کرتا رہتا ہے.کسی کو عہدے کی چاہت ہوتی ہے کسی کو دولت شہرت کی طلب ہوتی ہے کوئی طاقت چاہتا ہے کوئی خوشی کی تلاش میں رہتا ہے الغرض ہر فرد کی چاہت و خواہش کی نوعیت مختلف ہوتی ہے.لیکن کچھ خواہشیں مشترک ہوتی ہیں .کم از کم ایک خواہش جو تمام مسلمانوں میں رنگ ونسل ،فرقہ پرستی اور دوسرے اختلافات کے باوجود مشترک ہے .وە خواہش ہے الله اور اسکے حبیب صلی الله علیہ وسلم کے دربارمیں حاضری.اس خواہش کی تکمیل کی واحد شرط الله اور اسکے حبیب صلی الله علیہ وسلم کی طرف منظوری ہے.روپیہ پیسہ،استطاعت،لگن جذبہ اور عقیدت ثانوی حیثیت رکھتی ہیں. میں الله اور اسکے حبیب صلی الله علیہ وسلم کے اس لطف وکرم کا شکر ادا ہی نہیں کرسکتا کہ مجھ حقیر ادنی اور گناەگار پر میری اوقات حیثیت استطاعت طاقت اور عقیدت سے بڑھ کر عنایت کی.بس ایک ہی شعر بار بار میرے خیال میں گردش کر رہا ہے
 "میں اس کرم کے کہاں تھا قابل حضور کی بندە پروری ہے"
 انسان کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش جب پوری ہونے جا رہی ہو تو اس پر عجیب سا وجد و کیف طاری ہو جاتا ہے عجب سا سرور و اطمینان کا احساس رہتا ہے.الله کےاس بےشمار رحمت پر اور اپنی قسمت پر یقین نہیں ہوتا.کہاں میرے محدود عمل کہاں انکے لامحدود انعام؟ آپ سب سے التماس ہے کہ آپ میرے لیے دعا کریں میں بھی آپ سب کے لیے اس سفر حجاز کے دوران دعاگو رہوں گا۔
از:۔
 منیب اختر رضآ