Monday 26 May 2014

وقت

اس تیز رفتار اور مصروف دور میں اپنوں کو یاد تک کرنے کا وقت کس کے پاس ہے؟انسان تو خیر دور کی بات ہے ہم انسانوں سے جڑی یادوں تک کو یاد نہیں رکھ پاتے یا انہیں نظر انداز کر دیتے ہیں.میں تو کئی بار ان یادوں سے بھی معذرت خواە رہتا ہوں کے انہیں بھی وقت نہ دے پایا. جس طرح وقت گزر رہا ہے اسی طرح بہت سے انسان بھی ہماری زندگی سے گزرتے چلے جا رہے ہیں.ہم یہ تک یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ جس سے ہم آج مل رہے ہیں کل بھی اس سے ملاقات رہے گی یا نہیں. اپنی زندگی میں ہم ان گنت لوگوں سے ملتے ہیں.کچھ سے چند لمحوں کی ملاقات رہتی ہے.کسی سے تعلق کا سفر ہفتوں یا مہینوں پر محیط ہوتا ہے.کچھ تو ایسے ہیں کہ جن سے روزانہ کی بنیاد پر سالوں تک میل ملاپ رہتا ہے.لیکن ہم کسی کے بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ اس شخص سے اگلے لمحے ملاقات رہے گی یا نہیں۔
ملاقاتیوں کی اس طویل فہرست میں گنتی کے چند لوگ ہی ہیں کہ جن سے دوبارە ملنے کی خواہش ہمیشہ جاگزیں رہتی ہے.ایسے لوگ ہمارے دل کے انتہائی قریب ہوتے ہیں.ان کا عزت و مقام ہماری نظر میں بہت اعلی ہوتا ہے.وە ہمارے لیے بہت اہمیت اختیار کر جاتے ہیں.ان لوگوں سے ہماری ہر ملاقات ہمارے لیے خوشی کا باعث ہوتی ہے.انکی موجودگی کا احساس ہی ہمیں سرشار کر دیتا ہے.ان کا ادا کیا ہوا ہر حرف ہر فقرە ہماری سماعتوں کو تسکین بخشتا ہے.انکی ہم پر ڈالی ہر نظر ہمارے لیے اعزاز سے کم نہیں ہوتی.انکی مسکراہٹ اور خوشی کا اظہار ہمارے قلب کے لیے باعث اطمینان ہوتا ہے.انکی ہر بات روح میں اتر جانے کی طاقت رکھتی ہے.ان کا ہر ایک طرز عمل ہمارے لیے قابل تقلید ہوتا ہے.انکی سوچ و فکر ہم پر اثر انداز رہتی ہے.انکی شخصیت میں ایک طلسماتی کشش ہوتی ہے.جنکی تمام حرکات و سکنات،قول و فعل،انداز و دیگر معاملات پر ہم توجہ دیتے ہیں.جن کا پاس ہونا ہمیں ہر فکر سے آزاد کر دیتا ہے.جن پر ہمیں اپنی ذات سے زیادە اعتماد اور بھروسہ ہوتا ہے.جن کو اپنے ہر راز میں شریک کرنے کا جی چاہتا ہے.جنکے ہر مشورے اور نصیحت میں خلوص اور خیر خواہی چھلکتی ہے.جنکی بے تکلفی میں ہمیشہ اپنائیت دکھائی دیتی ہے. یعنی ایسے لوگ جن سے ہم ہر حوالے سے متاثر رہتے ہیں اور ہمیشہ ان سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کی آرزو کرتے ہیں۔
 وقت جب بدلتا ہے تو وە ہماری خواہش یا منشا کو ملحوظ خاطر نہیں رکھتا.جب وقت کروٹ لیتا ہے تو وە کسی کی نہیں سنتا بس وہی کر گزرتا ہے جو اسکی مرضی ہوتی ہے.وقت نہ ہمارے برسوں پر محیط تعلق کو دیکھتا نہ کسی اور حوالے سے متاثر ہوتا ہے وە بس ایک لمحے میں ہمیں ہمارے دستوں و عزیزوں سے جدا کر دیتا ہے ایک پل میں قربتوں کو دوریوں میں بدل ڈالتا ہے. پھر وہی اپنے جن سے برسوں کے یارانے ہوتے ہیں ہم سے دور ہو جاتے ہیں.جن سے دوری کا تصور بھی ممکن نہیں ہوتا انہی سے جدا ہونے کے لیے وقت ہمیں مجبور کر دیتا ہے.وقت کے اس فیصلے کے آگے ہیں سر تسلیم خم کرنا ہوتا ہے۔
پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جن سے روزانہ مستقل بنیادوں پر ملاقات رہتی تھی ان سے دنوں،ہفتوں یا مہینوں بلکہ بعض اوقات سالوں بعد ملاقات ہوتی ہے.کبھی ان لوگوں سے رابطے کا کوئی ذریعہ بھی باقی نہیں رہتا . پھر وە وقت بھی ہوتا ہے کہ رابطے کے ہزار طریقے ہزار ذرائع ہوتے ہیں لیکن پھر بھی رابطہ ہو نہیں پاتاکبھی ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا یا کبھی دوسرے فریق کے پاس بات کرنے کو وقت نہیں ہوتا.اکثر ایسے مواقع بھی آتے ہیں کہ دونوں کے پاس وقت ہوتا ہے لیکن بات کرنے کے لیے وقت موزوں نہیں ہوتا.کبھی وقت ہی ہمیں وقت نہیں دیتا تو اس وقت ہم وقت کے انتظار میں وقت صرف کرتے ہیں۔
وە دور بھی آتا ہے جب ہم وقت ہوتے ہوئے بھی اس وقت ایک دوسرے کو وقت نہیں دیتے اور ایک دوسرے کو نظر اندازکرتے ہیں.اس وقت ہم سارا الزام وقت پر دھر دیتے ہیں. مجرم ہماری اپنی ذات ہوتی ہے اور الزام وقت کے سر ہوتا ہے.کسی کو نظر انداز کرنے کے لیے وقت سے بہتر بہانہ موجود ہی نہیں. اگر آج ہم وقت کو وقت نہیں دیتے تو کل وقت بھی ہمیں وقت نہیں دے گا.آج ہم اگر کسی انسان کو وقت نہیں دیتے تو ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ کل اس انسان سے وقت لینا بھی مشکل ہو گا۔
 جیسے جیسے ہم کسی دوست یا شخص کو وقت کی وجہ سے نظر انداز کرتے ہیں ویسے ویسے ہی وە شخص ہم سے دور ہوتا چلا جاتا ہے.وہی دوست ہمارے اتنا قریب نہیں رہتا کہ جتنا پہلے ہوا کرتا تھا.ایک دن وە ہماری دسترس سے باہر ہو جاتا ہے اور ہم چاە کر بھی اسے دوبارە پاس نہیں بلا سکتے نہ اسے آواز دے سکتے ہیں اور نہ اس سے کوئی بات کہہ سکتے ہیں.بس پھر اس شخص کی ایک ہی چیز ہمارے پاس رە جاتی ہے ....اس وقت کی یاد.. اور ہماری پشیمانی ہی ہماری کمائی ہوتی ہے!؂
                      از:۔
 منیب اختر رضآ

No comments:

Post a Comment