Monday 9 December 2013

ثبوت


بڑے دکھ کی بات ہوتی ہے جب آپ کسی پر اندھوں کی طرح اعتماد کرو اور پھر وہ آپ کو واقعی ہی ثابت کر دے کہ آپ اندھے ہو. 

محبت حاصل نہیں عطا


پیار،خلوص اور محبتیں بھیک میں نہیں ملا کرتیں کہ انسان در یار کے باہر کشکول لےکر دھونی رما کر بیٹھ جاۓ۔یہ تو نصیب ،حالات اور دینے والے کی مرضی پر منحصر ہے۔کبھی تو چند بوندیں ہی سیراب کرنے کے لیے کافی ہوتی ہیں اور کبھی بھرپورساون بھی ناکافی ہوتا ہے۔
کبھی انسان ہجر کے بیابان صحرا میں پوری عمر یاد کےسہارے بھٹکتا رہتا ہے لیکن منزل مراد تک نہیں پہنچ پاتا۔اور دیدکی پیاس شدت سے نڈھال کیے رکھتی ہے۔
کبھی دو قدم چلنے کی زحمت بھی نہیں ہوتی اور وصال کی حسین وادی کے نظارے پلکیں بچھاۓ استقبال کرتے ہیں اور دیدار کی بارش تن من کو پوری طرح بھگو کر سرشار کردیتی.
کبھی ایک اور کیفیت بھی درپیش رہتی ہے مجبوری کی کیفیت.منزل پر پہنچ کربھی منزل کے دور ہونے کی کیفیت.ساتھ ہوتے ہوۓ بھی دوری کیفیت.طاقت ہوتے ہوۓبھی مجبوری کی کیفیت.وصال ہوتے ہوۓ بھی ہجر کی کیفیت.
از:۔
منیب اختر رضآ

ںامعلوم مقام عزت


کبھی کبھی آپ اس بات سے انجان ہوتے ہیں کہ آپ کسی کی نظر میں کیا عزت و مقام رکھتے ہیں.آپ نہیں جانتے کہ کب کسی لمحے میں اس شخص سے کہے گۓ کچھ پر خلوص الفاظ یا فقرے کس حد تک اس شخص کی زندگی پر اثر انداز ہو تے ہیں اور اسکی شخصیت پر گہرے نقوش چھوڑ جاتے ہیں.
پھر آپ ایک عرصے تک اس خوشگوار حیرت میں مبتلا رہتے ہیں کہ وە شخص مجھ سے اسقدر متاثر کیونکر ہوا اور آخر اس اچانک عقیدت کی پیداۂش کی وجہ کیا ہے؟
از:۔
منیب اختر رضآ

غلطی اور احساس


غلطی ہو جانا غلط نہیں لیکن غلطی کا احساس نہ ہونا غلط فعل ہے.
انسان سے خطا ہونااسکی خطا نہیں لیکن خطا کو تسلیم نہ کرنا صریحاً انسان کی خطا ہے.
کسی بھی غلطی یا گناە کا اصل کفارە اس کے نتیجے میں ہونے والا احساس ندامت اور شرمندگی ہے کیونکہ غلطی کا احساس اور اس پر ہونے والی ندامت توبہ کی پہلی سیڑھی ہے.جن پر غلطی کرنے کے بعد ندامت اور شرمندگی کی کیفیت طاری ہوتی ہے وە لوگ الله کا قرب حاصل کر لیتے ہیں .لیکن جو اس احساس اور کیفیت سے محروم رہتے ہیں وە الله سے بھی دور ہوتے چلے جاتے ہیں.
غلطی کا احساس نہ ہونا مردە ضمیر ہونے کی نشانی ہے .
غلطی ہونے اور اس کا احساس ہونے کے مراحل تو آسان ہیں لیکن سب سے مشکل امر تو غلطی پر معافی مانگنے کا ہے.اور یہی امر اس غلطی کو غلط فہمی بننے سے روکنے کا موٴجب ہے.
غلطی کا احساس ہونا انسان کی اپنی ذات تک محدود ہےجبکہ معافی طلب کرنا اس احساس کےاظہار کا ذریعہ.
غلطی ہونے کے بعد ضمیر کے مطمۂن ہونے کا واحد حل معافی کی طلب ہے.معافی مانگنے سے ہی انسان کا ضمیر سکون حاصل کرتا ہے ورنہ ایک گمنام سی بے چینی دل کے کسی کونے میں گھر کر لیتی ہے.معافی مانگنے کا عمل وقتی طور پرمشکل اور تکلیف
دە ضرور ہےکیونکہ
اسکے لیے انا،عہدە یا معاشرتی مقام جیسی چیزوں کو شکست دینا ضروری ہے لیکن اسکے بدلے میں حاصل ہونے والا سکون اور
راحت داۂمی ہوتی ہے.
از:۔
منیب اختر رضآ

قوت الفاظ و انداز


الفاظ اور انداز میں ایک مخفی طاقت ہوتی ہے..یہ آسانی سے کسی کی شخصیت کواغوا کر سکتے ہیں. اگر الفاظ و انداز کسی شخص کے دل کو اپنی طاقت سےجکڑ لیں تو پوری عمر روح تاوان دیتی رہتی ہے اور یہ ایسا تاوان ہے جسے دیتے ہوۓ وە شخص دلی خوشی محسوس کرتا ہےاور کوئ بھی اس شخص کو تاوان کی اداۂیگی سے نیں روک سکتا!؂ 
تاوان کسی بھی شکل میں ہو سکتا ہے خواە وە کام ہوں یا شخصی خدمات کی صورت.اب یہ علیحدە بحث ہے کہ اس اغوا شدە دل سے کیا کام لیے جا سکتے ہیں.ان کاموں کی نوعیت چاہے مثبت ہو یا منفی مغوی (اغوا ہونے والا شخص ) ان سے لا تعلق ہو کرصرف کام(تاوان) کی انجام دہی میں مصروف رہتا ہے!
اس اغوا کی دلچسپ بات کہ مغوی(اغوا ہونے والا) کبھی اغوا کار کی نادیدە قید سے رہائ کی کوشش بھی نہیں کرتا حالانکہ وە تاوان بھی متعدد مرتبہ ادا کرچکا ہوتا ہے بلکہ مغوی اس قید میں طوالت کا متمنی رہتا ہے.؂
از:۔
منیب اختر رضآ

جذبات


الله پاک نے ہم انسانوں کو لا تعداد نعمتوں سے نوازا ہے کہ جن کا شمار تو شاید انسان کے بس کی بات ہی نہیں.انسان کہاں اپنی محدود عقل اور علم سے اس رب لعالمین کی لامحدودنوازشوں کو گن سکتا ہے؟
الله کی عطا کردە نعمتوں میں سے کچھ کو تو ہم دیکھ سکتے ہیں لیکن کچھ نعمتوں کا تعلق محسوسات سے ہے..اگر غور کیا جاۓ تو ہم میں موجود جذبات بھی نعمت ہیں.اگر جذبات نہ ہوتے تو ہم کیسے اپنی ذہنی اور جسمانی کیفیت دوسروں کو سمجھا سکتے؟
خوشی ،غم،غصہ،پیار محبت ،نفرت،تعریف،حسد،جوش وجذبہ ولولہ ،عقیدت اور اس طرح کی دوسری کیفیات جذبات کے زمرے میں آتی ہیں.دنیا میں کوئ بھی ایسا انسان نہیں کہ جو یہ دعویٰ کر سکے کہ وە ان کیفیات کا تجربہ نہیں رکھتا.بےجان اشیا ہی ان جذبات سے عاری ہوتی ہیں ورنہ انسان ہوں یا حیوان سب میں یہ جذبات ضرور موجود ہوتے ہیں.انسانوں میں حیوانوں کی نسبت نوعیت کے اعتبار سے زیادە گہرے پیچیدە اور وسیع جذبات ہوتے ہیں.
جذبات کا براەراست تعلق ہمارے دل کےاحساسات کیفیات اور موسمیات سے ہوتا ہے..ہماری زندگی میں ہونے والے حالات و واقعات ہمارے دل کی کیفیات پر اثر انداز ہوتے ہیں.جذبات کا تعلق ہماری محسوسات سے ہے.ہم کسی چیز کے بارے میں کیا محسوس کرتے ہیں اسکی عکاسی و ترجمانی ہمارے جذبات کرتےہیں.
اس بات میں شک کی گنجاۂش ہی نہیں کہ انسانوں میں جذبات ہوتےلیکن سب سے اہم معاملہ انکے اظہار کا ہے..جذبات اپنے اظہار کے بِنا بے معنی ہیں.انکے اظہار کے بغیر ہم اپنی دل کی کیفیت سمجھانے سے قاصر رہتے ہیں..میرےنزدیک جذبات کا اظہار اتنا ہی ناگزیر ہے کہ جتناان کا پیدا ہونا.
جذبات کے اظہار کےحوالے سے انسان بنیادی طور پر دو قسم کے ہوتے ہیں.
.پہلے وە جو جذبات کا برملا اظہار کرتے ہیں بلکہ شدت سے اظہار کرتے ہیں.وە چاہتے ہیں کہ وە اپنی اندرونی و دلی کیفیت پوری دنیا کو بتا دیں اور جذبات کے اظہار میں کسی قسم کی کنجوسی سے کام نہ لیں.
دوسری قسم میں وە انسان شامل ہیں جو جذبات تو رکھتے ہیں لیکن وە ان کا اظہار کر نہیں پاتے یا کرنا نہیں چاہتے.وە اپنے محسوسات کو اپنی ذات تک محدود رکھنا چاہتے ہیں اور اپنی اندرونی و دلی کیفیت کو سب سے پوشیدە رکھتےہیں اور اظہار انکے نزدیک گناە کے مترادف ہوتا ہے.
اب جذبات کے اظہار کی کچھ قدرتی طور پر راۂج علامات موجود ہیں.یعنی خوشی کے ساتھ مسکرانا ہنسنا،غم دکھ درد تکلیف کے ساتھ رونا کراہناآنسو ،غصے کےساتھ چیخناچلانا منسوب ہیں
ان مروجہ علامات کو انسان کی فطرت میں شامل کر دیا گیا ہے یعنی کسی انسان کسی جذبے کے حوالے سے سکھایا نہیں جاتا بلکہ خاص جذبے کے ساتھ لاشعوری طور پر ایک خاص ردعمل ظاہر ہوتا ہے.لیکن کئ مرتبہ شدت جذبات اس فطری ردعمل کے نظام کو بلکل الٹا کر رکھ دیتے ہیں مثلا کبھی ہم نہایت خوشیکےموقعوں پر شدت جذبات کے باعث اپنے آنسووٴں نہیں روک پاتےاور رونے لگ جاتے ہیں حالانکہ رونا اور آنسوتو غم کے اظہار کا ذریعہ ہیں.بالکل اسی طرح جب انسان شدت غم کی حالت میں اپنے حواس قاۂم نہیں رکھ پاتا تو ہنسنے لگتا ہےحالانکہ ہنسناتو خوشی اور راحت سے منسوب ہے.ایسا تب ہوتا ہے جب اس جذبے یا کیفیت کی مقدار انسان کی متوقع حد سے تجاوز کر جاۓ اور جذبے کا فطری رد عمل جذبے کے اظہار کے لیے ناکافی ثابت ہو تو ایسی صورت میں مقابل جذبے کی علامت یا ردعمل کو موجودە جذبے کےاظہار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے.
میں ذاتی طور پر جذبے کے بروقت اظہار کا حامی ہوں اور جذبات کے اظہار کے حوالے سے میانہ روی کا قاۂل بھی.کچھ لوگ صرف اس لیے اپنے جذبات یا ان کے اظہار کو پوشیدە رکھتے ہیں کہ کہیں زمانےمیں موجود انکے عہدے،رتبے یا
ساکھ کو نقصان نہ پہنچے یا انکے معزز ہونے پر نہ کوئ حرف آ
جاۓ حالانکہ پیار محبت خلوص حسن سلوک رواداری شکرگزاری پسندیدگی صلہ رحمی
اور اس
جیسے دیگر جذبات اور
انکا برملا اظہار انسان کی شخصیت کے مثبت پہلووٴں کو اجاگر کرنے کے ساتھ نیک نامی کا باعث ہوتا ہے اورالله اسکے حبیب صلی الله علیہ وسلم کی قربت حاصل کرنے کاذریعہ ہوتا ہے..
از:۔
منیب اختر رضآ