Thursday 30 January 2014

منشا و امید


ہم تو موجود تھے راتوں میں اجالوں کی طرح
تم نے ڈھونڈا ہی نہیں ڈھونڈنے والوں کی طرح 
 کئی بار چیزیں ہماری مرضی کے مطابق نہیں ہوتیں .ہم جسکو اپنی موجودگی کا احساس دلانا چاە رہے ہوں وە ہمیں محسوس نہ کرنا چاہتاہو.جسکی نظر کرم کے ہم منتظر ہوں وە ہی نظر ہمیں نظرانداز کرے.جسکی توجہ حاصل کرنے کی خواہش ہو وہی اپنی توجہ کسی دوسری جانب مبذول کر لے.چراغ کی مانند ہم جگمگا رہے ہوں لیکن ہماری روشنی اس تک پہنچنے سے قاصر ہو یا یہ روشنی اس کے لئے کوئی معنے رکھتی نہ ہو.ہمارا وجود اسکے لئے نہ ہونے کے برابر ہو.ہماری شخصیت کا کوئی بھی پہلو اس کو متاثر نہ کر پائے جو ہماری ذات سے ہی بے نیاز ہو .جو ہماری آواز کو سن کر بھی ان سنا کر دے .جو ہماری بات کو ہی خاطر میں نہ لائے.جب کسی کو ہماری طلب ہی نہیں،اسکو ہماری حاجت ہی نہیں نہ ہماری توجہ کی ضرورت ہے اور نہ ہمیں حاصل کر لینے کی خواہش کہ وە کسی قسم کی جدو جہد کرے، تو ان تمام باتوں میں اس شخص کا قصور نہیں اصل مجرم تو ہم ہیں جو ایک محدود اور مجبور انسان سے لا محدود امیدیں لگائے بیٹھے رہتے ہیں .کوئی انسان چاہے ہماری نظر میں جتنا بھی عظیم کیوں نہ ہو وە خدا تو نہیں کہ وە ہماری ساری خواہشات کی تکمیل کی قدرت رکھتا ہو.جس طرح وە شخص معاشی طور پر غریب ہے کہ جس کے اخراجات اسکی آمدنی سے زیادە ہوں ویسے ہی ہم رشتوں کے معاملے میں تب غریب ہوتے ہیں کہ جب ہم کسی کی استطاعت سے زیادە اس سے امیدیں لگا بیٹھتے ہیں.لامحدود امیدیں صرف لا محدود ذات تک محدود رکھی جائیں تو ہی ہماری بھلائی ہے.ہمیشہ امیدکا محورالله کی ذات کو بنائیں سکون نصیب ہو جائے گا.                                                                                                                                      از:۔             
منیب اختر رضآ

اکثر لوگ ہمیں خصوصاً مجھے نصیحت کرتے ہیں "اتنا سوچا نہ کرو"لیکن وە خود اس سوچ میں گم ہوتے ہیں کہ ہم کیا سوچ رہے ہیں؟.سوچنے والوں کی دنیا....اور دنیا والوں کی سوچ ہمیشہ مختلف ہوتی ہے. از:۔ منیب اختر رضآ

Wednesday 22 January 2014

ہمارا خلوص ہمیشہ دوسرے شخص کے لیے ایک بارش کے قطرے کی مانند ہوتا ہے جو اس شخص کے وجود پر برس کر اسکو سکون مہیا کرتا ہے لیکن وە قطرە آخر پھسل کر اس شخص کے قدموں میں جا گرتا ہے اور آخر ہمارا خلوص اسکے قدموں تلے جذب ہوکر غائب ہو جاتا ہے اور اس دن ہمیں اس شخص کی نظر میں ہمارے خلوص کی اصل قدر و وقعت کا اندازا ہوتا ہے. از:۔ منیب اختر رضآ

Wednesday 1 January 2014

دسمبر سال کا آخری مہینہ اور دفتری اعتبار سے کھاتے بند کرنے(کلوزنگ) اور سالانہ جائزە (رپورٹ) مرتب کرنے کے حوالے سے بھی جانا جاتا ہے.اس مہینے میں ہر کوئی اپنے کاروباری سال میں ہونے والے نفع و نقصان اور دیگر امور کا جائزە لے کر ایک رپورٹ مرتب کرتا ہے اور دیکھتا ہے کہ کن کاموں میں فائدە ہوا اور کونسے کام روک کر نقصان سے بچا جا سکے یا کونسے ایسے امور ہیںکہ جن کا اضافہ ضروری ہے یا دیگر امور کی کارکردگی کیسی رہی.
کبھی میں سوچتا ہوں کہ ہم سال کے کسی حصے یا کم از کم اختتام پر اپنے رشتوں٬تعلقات٬روابط٬رویے٬سلوک اور اس جیسے دوسرے امور کا جائزە کیوں نہیں لیتے؟ہم کیوں اپنے رشتوں اور تعلقات کو اہمیت نہیں دیتے؟کیوں ہم اپنے رویوں برتائو اپنے دوسروں کے ساتھ سلوک کا تجزیہ نہیں کرتے؟کیوں ہم ٹوٹتے رشتوں اور محدود ہوتے ہوئے تعلقات کو خاطر میں نہیں لاتے؟کیوں ہم اس بات کا ادراک نہیں رکھتے کہ گزشتہ سال ہمارے تعلقات کس مقام پر تھے اور آج کس نہج تک پہنچ چکے ہیں؟کیوں ہم رشتوں میں کمی کے نقصان سے ناآشنا ہیں؟کیوں ہم سال کے بعد رشتوں میں آنے والی تبدیلیوں کی کوئی جائزە رپورٹ نہیں بناتے؟کیوں ہم ان کمزور ہوتے رشتوں یا تعلقات کو کم کرنے والے امور کو کیوں ترک کرنے اقدامات نہیں کرتے؟کیوں ہم اپنے دوسرے کے ساتھ بدلتے سلوک اور رویوں پر نظر ثانی نہیں کرتے؟کیوں ہم رویوں میں موجود سرد مہری کو گرم جوشی میں تبدیل نہیں کر پاتے؟کیوں ہم اپنے رشتوں اور رویوں میں نفرت،بد نیتی،بددیانتی اور حسد کے بیج بوتے ہیں؟کیوں ہم کسی کے خلوص،محبت اور پیار کو شک کی نگاە سے دیکھتے ہیں؟جانے کیوں ہم رشتوں کے نقصان کی پرواە نہیں کرتے اور کاروباری نقصان برداشت نہیں کرتے؟کیوں ہم بےحس ہوتے جا رہے ہیں؟
یہ سب ہمارے لالچ کا نتیجہ ہے.ہم الله سے بھی کاروبار کرتےہیں حالانکہ ہمارا کام اسکی اطاعت اور شکر گزاری ہے.ہم الله سے دنیاوی مال مانگتے ہیں خواہشوں کی تکمیل مانگتےہیں کاروبار کا
منافع مانگتےہیں لیکن کبھی الله سے اسکی قربت نہیں مانگتے اسکی نزدیکی کے طلبگار نہیں رہتے.جب الله ہمیں نوازتا ہے تو اسکی نوازش کو ہم اپنی مخنت کا صلہ مانتے ہیں اور اسکی آزمائش و امتحان پر اس سے گلہ کرتے ہیں .
دعا ہے کہ ہماری الله اور اسکے بندوں کے ساتھ رشتوں میں مظبوطی پیدا ہو اور ان کے ساتھ ہمارے رویوں میں مثبت تبدیلی آئے.آمین
              از:۔
            منیب اختر رضآ