Saturday 21 December 2013

دھند اور روشنی

اپنے کمرے کی کھڑکی سے دھند کو بڑھتے دیکھنا اورکسی سنسان سڑک پر تیزی سے اترتی پھیلتی دھند کی شدت کو محسوس کرنا دونوں مختلف تجربات ہیں۔کمرے کے گرم ماحول میں کھڑکی سے بڑھتی دھند کو دیکھنا بھلا معلوم ہوتا ہے اور انسان اس نظارے سے لطف اندوز ہوتا ہے لیکن اگر ہم اپنے کمرے سے باہر کسی کھلی جگہ پر اترتی اور پھیلتی اور اترتی دھند کے درمیان موجود ہونا زیادہ خوشگوار احساس نہیں ہوتا۔گزشتہ رات اتنی شدید دھند تھی اور اتنی تیزی سے پھیلتی دھند میں نے پہلی بار نا صرف دیکھی بلکہ اس دھند میں موجود یخ بستگی ٹھنڈک سراب سردی اورغیر واضح منظر کو عملی طور پر محسوس کیا۔حد نظر تقریبا ایک فٹ سے زیادہ نہ تھی اور ہوا میں موجود نمی کی مقدار اتنی زیادہ تھی کہ وہ نمی ہاتھوں اور منہ پر قطروں کی مانند ساکن ہو جاتی تھی اور کپڑے ایسے تھے کہ جیسے ہلکی بارش کے بعد ہلکے سے گیلے ہوجاتے ہیں۔
اس دھند سے گزرتے میں یہ بات شدت سے سوچ رہا تھا بلکہ محسوس کر رہا تھا کہ ہمارے دوستوں اور عزیزواقارب کے درمیان موجود رشتوں اور تعلقات کی نوعیت بھی اس دھند کی مانند ہی تو ہے کہ جب تک ان دوستوں اور عزیزوں کی محبت پیار خلوص اور قرب ہمارے ساتھ رہتا ہے تو ہم خود کو اس گرم کمرے میں موجود پاتے ہیں جہاں سے باہر موجود دھند بھی معلوم ہوتی ہے۔لیکن جب یہ دوست اور عزیز آپ سے کسی بھی وجہ سے ہم سے دور یا بے نیاز ہوجاتے ہیں یا ہمیں نظر انداز کرتے ہیں یا انکا خلوص پیار اور محبت ہمارے لیے پہلے سا نہیں رہتا یا ان کے رویے میں موجود سردمہری عیاں ہوجاتی ہے تو ہم اچانک اس گرم کمرے سے نکل کر اس شدید اترتی پھیلتی دھند کے درمیان آ جاتے ہیں جب ارد گرد کچھ نظر نہیں آتا جب حد نظر صفر ہو جاتی ہے جب ہوا میں موجود نمی آپکے چہرے پر آنسوئوں کی مانند ٹھہر جاتی ہےاوریہ نمی آپکے کپڑوں کو گیلا کردیتی ہے آپکے ہاتھ یخ بستہ ہو کر حرکت سے محروم ہو جاتے ہیں۔جب ہم اس سرد ماحول میں ٹھٹھر رہے ہوتے ہیں اور پرانے وقتوں کے کو یاد کرتے ہیں اس گرم کمرے کو یاد کرتے ہیں اس پیار محبت اور خلوص کی حرارت کو یاد کرتے ہیں آنسو آپکی آنکھوں میں تو ہوتے لیکن وہ بھی اس ٹھنڈ میں آپکی آنکھوں میں ہی جم جاتے ہیں۔آپ خود کو تنہا محسوس کرتے۔کچھ نظر نہ آنے کے باعث آپ ہر طرف اندھیرا محوس کرتے ہیں آپ خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں پھر دل میں ہی اللہ سے اس کے بارے میں گلے شکوے کرتے ہیں۔اللہ سے ان تمام حالات کی اور اپنی قسمت کی شکایت کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں "اے اللہ ہمارے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے ہم نے تو کبھی بھی کسی کی ساتھ برا نہیں کیا پھر ہماری قسمت میں ایسے دن کیوں لکھے گئے؟ہم تو سب میں پیار محبت اور خلوص بانٹتے رہے پھر ہماری قسمت میں یہ نفرت یہ دغا یہ خود غرضی یہ لا تعلقی یہ بے نیازی کیوں؟کیوں ہمیں ہی نظر انداز کیا جاتا ہے؟"    پھر اسی دوران اچانک ہی ہمیں اس دھند میں ایک مدھم سی موہوم سی روشنی دکھائی دیتی ہے ہماری آنکھیں اس روشنی کو نہیں دیکھ سکتیں لیکن ہمارا دل اس روشنی کی چھوٹٰی سی کرن کو دیکھ سکتا ہے۔۔پھر ہم اس روشنی کی جانب چلتے ہیں اور چلتے ہیں ایک یقین کے ساتھ ایک اعتماد کے ساتھ ۔ہمارا دماغ اس چیز کو قبول نہیں کرتا لیکن ہمارا دل اس روشنی کی جانب سفر کرنا چاہتا ہے اور ہمارا وجود ہمارے دل کا ساتھ دیتا ہے اور ہم اسی سمت چلتے ہیں اس شدید دھند میں اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں۔جوں جوں ہم اس جانب جاتے ہیں تو یہ روشنی بڑھتی ہے اور قدرے واضح ہونے لگ جاتی ہے اور آخر کار اس روشنی کے قریب پہنچ جاتے ہیں اور وہاں پہنچ کر ہمیں پتا چلتا ہے کہ یہ وہ روشنی ہے جو ہمارے اندر کی روشنی ہوتی ہے جو اللہ تعالی نے ہر انسان کو عطا کی ہوتی ہے۔یہ روشنی ایک آگ کا آلائو ہوتا ہے جو اس اندھیرے میں روشنی بھی دیتا ہے اور اس سردی میں حرارت بھی۔یہی وہ روشنی ہے کہ جو ہمیں اللہ تک پہنچنے میں مدد دیتی ہے۔یہی وہ روشنی ہے کہ جس سے ہم شداد دھند میں بھی دور تک دیکھ سکتے ہیں۔یہی وہ روشنی ہے جو ہمیں ہم سے روشناس کراتی ہے۔اس روشنی کو پا لینے کے بعد ہمیں کسی دوست یا عزیز کی لا تعلقی اور بے نیازی سے کوئی سروکار نہیں رہتا نہ ان کے رویے کی پرواہ رہتی ہے انکی توجہ کی ضرورت نہیں رہتی انکے قرب کی چاہت بھی نہیں رہتی۔
اس سب کے بعد پھر ایک ہی چاہت رہ جاتی ہے ایک ہی خواہش رہ جاتی ہے ایک ہی تمنا رہ جاتی ہے ایک ہی منزل رہ جاتی ہے۔اللہ کے قرب کو حاصل کرنا اسکی خوشنودی حاصل کرنا اسکی مخلوق کی بھلائی کرنا۔
                                               تحریر از:-
                                               منیب اختر رضا                     

No comments:

Post a Comment