Monday 9 December 2013

جذبات


الله پاک نے ہم انسانوں کو لا تعداد نعمتوں سے نوازا ہے کہ جن کا شمار تو شاید انسان کے بس کی بات ہی نہیں.انسان کہاں اپنی محدود عقل اور علم سے اس رب لعالمین کی لامحدودنوازشوں کو گن سکتا ہے؟
الله کی عطا کردە نعمتوں میں سے کچھ کو تو ہم دیکھ سکتے ہیں لیکن کچھ نعمتوں کا تعلق محسوسات سے ہے..اگر غور کیا جاۓ تو ہم میں موجود جذبات بھی نعمت ہیں.اگر جذبات نہ ہوتے تو ہم کیسے اپنی ذہنی اور جسمانی کیفیت دوسروں کو سمجھا سکتے؟
خوشی ،غم،غصہ،پیار محبت ،نفرت،تعریف،حسد،جوش وجذبہ ولولہ ،عقیدت اور اس طرح کی دوسری کیفیات جذبات کے زمرے میں آتی ہیں.دنیا میں کوئ بھی ایسا انسان نہیں کہ جو یہ دعویٰ کر سکے کہ وە ان کیفیات کا تجربہ نہیں رکھتا.بےجان اشیا ہی ان جذبات سے عاری ہوتی ہیں ورنہ انسان ہوں یا حیوان سب میں یہ جذبات ضرور موجود ہوتے ہیں.انسانوں میں حیوانوں کی نسبت نوعیت کے اعتبار سے زیادە گہرے پیچیدە اور وسیع جذبات ہوتے ہیں.
جذبات کا براەراست تعلق ہمارے دل کےاحساسات کیفیات اور موسمیات سے ہوتا ہے..ہماری زندگی میں ہونے والے حالات و واقعات ہمارے دل کی کیفیات پر اثر انداز ہوتے ہیں.جذبات کا تعلق ہماری محسوسات سے ہے.ہم کسی چیز کے بارے میں کیا محسوس کرتے ہیں اسکی عکاسی و ترجمانی ہمارے جذبات کرتےہیں.
اس بات میں شک کی گنجاۂش ہی نہیں کہ انسانوں میں جذبات ہوتےلیکن سب سے اہم معاملہ انکے اظہار کا ہے..جذبات اپنے اظہار کے بِنا بے معنی ہیں.انکے اظہار کے بغیر ہم اپنی دل کی کیفیت سمجھانے سے قاصر رہتے ہیں..میرےنزدیک جذبات کا اظہار اتنا ہی ناگزیر ہے کہ جتناان کا پیدا ہونا.
جذبات کے اظہار کےحوالے سے انسان بنیادی طور پر دو قسم کے ہوتے ہیں.
.پہلے وە جو جذبات کا برملا اظہار کرتے ہیں بلکہ شدت سے اظہار کرتے ہیں.وە چاہتے ہیں کہ وە اپنی اندرونی و دلی کیفیت پوری دنیا کو بتا دیں اور جذبات کے اظہار میں کسی قسم کی کنجوسی سے کام نہ لیں.
دوسری قسم میں وە انسان شامل ہیں جو جذبات تو رکھتے ہیں لیکن وە ان کا اظہار کر نہیں پاتے یا کرنا نہیں چاہتے.وە اپنے محسوسات کو اپنی ذات تک محدود رکھنا چاہتے ہیں اور اپنی اندرونی و دلی کیفیت کو سب سے پوشیدە رکھتےہیں اور اظہار انکے نزدیک گناە کے مترادف ہوتا ہے.
اب جذبات کے اظہار کی کچھ قدرتی طور پر راۂج علامات موجود ہیں.یعنی خوشی کے ساتھ مسکرانا ہنسنا،غم دکھ درد تکلیف کے ساتھ رونا کراہناآنسو ،غصے کےساتھ چیخناچلانا منسوب ہیں
ان مروجہ علامات کو انسان کی فطرت میں شامل کر دیا گیا ہے یعنی کسی انسان کسی جذبے کے حوالے سے سکھایا نہیں جاتا بلکہ خاص جذبے کے ساتھ لاشعوری طور پر ایک خاص ردعمل ظاہر ہوتا ہے.لیکن کئ مرتبہ شدت جذبات اس فطری ردعمل کے نظام کو بلکل الٹا کر رکھ دیتے ہیں مثلا کبھی ہم نہایت خوشیکےموقعوں پر شدت جذبات کے باعث اپنے آنسووٴں نہیں روک پاتےاور رونے لگ جاتے ہیں حالانکہ رونا اور آنسوتو غم کے اظہار کا ذریعہ ہیں.بالکل اسی طرح جب انسان شدت غم کی حالت میں اپنے حواس قاۂم نہیں رکھ پاتا تو ہنسنے لگتا ہےحالانکہ ہنسناتو خوشی اور راحت سے منسوب ہے.ایسا تب ہوتا ہے جب اس جذبے یا کیفیت کی مقدار انسان کی متوقع حد سے تجاوز کر جاۓ اور جذبے کا فطری رد عمل جذبے کے اظہار کے لیے ناکافی ثابت ہو تو ایسی صورت میں مقابل جذبے کی علامت یا ردعمل کو موجودە جذبے کےاظہار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے.
میں ذاتی طور پر جذبے کے بروقت اظہار کا حامی ہوں اور جذبات کے اظہار کے حوالے سے میانہ روی کا قاۂل بھی.کچھ لوگ صرف اس لیے اپنے جذبات یا ان کے اظہار کو پوشیدە رکھتے ہیں کہ کہیں زمانےمیں موجود انکے عہدے،رتبے یا
ساکھ کو نقصان نہ پہنچے یا انکے معزز ہونے پر نہ کوئ حرف آ
جاۓ حالانکہ پیار محبت خلوص حسن سلوک رواداری شکرگزاری پسندیدگی صلہ رحمی
اور اس
جیسے دیگر جذبات اور
انکا برملا اظہار انسان کی شخصیت کے مثبت پہلووٴں کو اجاگر کرنے کے ساتھ نیک نامی کا باعث ہوتا ہے اورالله اسکے حبیب صلی الله علیہ وسلم کی قربت حاصل کرنے کاذریعہ ہوتا ہے..
از:۔
منیب اختر رضآ

No comments:

Post a Comment